مضامین
اسلام کے ماضی اور حال کی صحیح تفہیم کی طرف
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد وعلی آلِہِ وصحبہِ
پیش لفظ
یادیں تجدید کرنےکے ساتھ ہی ساتھ ا یمان او رپختہ یقین بھی تجدید ہوتی ہے، ہر زمانے میں، عظمت اورعزت والے اللہ اس عظیم دین کا نگہبان اور حافظ ہو کر ہی رہیگا ، خداتعالیٰ نے فرمایا: کتابِ نصیحت ہمین اتاری ہے اور یقینا ہم اسکے نگہبان ہے (الحجر: 9)عدید دشمنانِ اسلام کی دوچار، گمراہ کن دعویداروں اور تمام مبتدع والوں کی گمراہ اور ان کی راہ پر ان کے ساتھ دینے والے تمام منافقوں اور دھوکہ دہی کرنے والے جاہلوں کے باوجود اس امت کا رحم ہر جیل میں زرخیز رہ ہوکر کئی مجدد والوں کوجنم دیا ہے,جنون نے برائی سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہے, دشمن والوں کی فریب کاری کے خلاف اپنی گھونکھڑوں میں شعلہ بنا کر اسلام کی عظمت اور فراست بڑاتی ہے۔ انہوں، دین اسلام کی اصالت اور صحیح راستہ لوگوں کے سامنے ایک نئی طریقہ سے پیش کر مذہب کی اندرونی حقیقت کو واضح کرتے ہیں اور اس مذہب کو تمام افق پر پھیلانے میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔
جیسا کہ ہم آپ موقع السیادۃ کے قارئین سے وعدہ کیے تے، ہمیں اس مقالہ کو طبع کرنے سے بہت معزّزیں ہے,جس کی ہر سطر سے ایک مضبوط,سمجار مُؤمن ضرورفائدۃ لینگے, جو غلط بیانی یا تبدیلی کے بغیر علم کی پھیلاؤ میں دانشمندی اور اخلاص سے کام کرتے ہیں, جس وجہ سے پورے دنیا میں رحمت اور انصاف غالب ہونگے,نا انصافی اور تعصب کی چشمہ ختم ہوجایئنگے, او ر ویسے اس فطری مذہب کی وجہ سے پورے انسانیت سعادۃ پاینگے۔ جیسے اللہ تعالا فرماتے ہیں ( فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُون)
(سو تم ایک طرف کے ہو کر دین الہی پر سیدھا رخ کئے چلتے رہو ااور اللہ کی فطرت کو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اختیار کئے رہو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں تغیر و تبدیل نہیں ہو سکتا۔یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے)۔ [سورت الروم 30 ]
یہ آیت چھوٹے سائز کے باوجود ایک انسائیکلوپیڈیا ہے، جس سے قاری کے لئے غور و فکر کرنے کے لئے نئے افق کھل دیتی ہیں، اسے ایمان کی تجدید کا موقع فراہم ہوتا ہے، اس میں تحقیق اور تفکیر کی فیکلٹی اظہار ہوتی ہے، اور اس سے سنہرے تاریخ کی صفحات سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب ملتی ہے، پھر اس مذہبِ اسلام کی تائیداور مدد کیے لئے اخلاص اور پرہیزکاری سے کام کرنے کے ارادے اور عزم تجدید ہونے کی توفیق بھی ملتی ہے۔
ہم اخوان فی اللہ بھائیوں کا خلوص کا شکریہ ادا کرنے میں ناکام نہیں ہوتےہیں، جنہوں نے اپنے سید، شیخ الاسلام، عوام کی خوشی، ہمارے مولانا شریف ابراہیم صالح الحسینی کی زیارت کے لئے، اپنے ملکوں سے سارے مشکلات برداشت کر آچکا ہیں۔یہ زیارۃ اللہ کی وجہ سے اللہ کیلے، اللہ کے نام سے ہوا ہے, جیسے کہ قرآن کی پاکیزہ الفاظ یاد دلاتی ہے
توبہ ۲۲۱ (اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مؤمن سب کے سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے اور اس میں سمجھ پیدا کرتے۔ اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو انکو ڈر سناتے تاکہ وہ بھی محتاط ہو جائے (
اِخوۃ الزوّار
۱۔ شیخ سلطان بن محمود المسکری(مملکت عمان)
۲۔ سیّد احمد قرشی (مملکت عمان)
۳۔سیّد عبد اللہ الصیابی (مملکت عمان)
۴۔سیّد احمد یعقوب (مملکت عمان)
۵۔دکتور مختار علی (یو ا ء)
۶۔دکتور امین یوسف
۷۔سید الشریف الرشید احمد عبد الرحمن الخراسانی
۸۔سید رحمت اللہ (کیرلا ہندستان۔جدۃ میں رہتے ہے
خدا بابرکت اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ اپنے نامور، شیخ اسلام، مولانا شیخ شریف ابراہیم صالح الحسینی کو طول الحیاۃ سے نوازے، اور اِس قوم کے لئے ایک اثاثہ بنائے رکھے، اور اس کے اہل خانہ اور ساتھیوں کے ساتھ محفوظ رکھے، اور مکمل صحت و عافیت سے لطف عطا فرمایں،، اور اللہ انکی تمام امیدوں کو پورا کریں، خصوصاً سب سے بڑھے امید کہ دین اسلامی کی قوت بڑھانا اور اس امت ہر طبقات و جماعات کے درمیان رحمت، محبت، اور ہم آہنگی کے ساتھ ایک مضبوط، اور متحد قوم ہوکر دوبارہ فتوحات کو سینے سے لگانا، اور یہ کہ مسلم ممالک کو سلامتی، استحکام اور امن حاصل ہوجائے۔و ما ذالک علی اللہ بعزیز۔
السلام علیکم ورحم. اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیّدنا محمّد و علی آلہ الطیِّبین و صحبہ الطاھرین
ابتدائی اسلام میں صحابہ کرام کے کام کی دشواری
معزز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تنازعات اور اختلاف کی زدہ میں تھے، حالانکہ انہون، مذہب اسلام کو محفوظ رکھنے میں کامیاب تھیں۔ صحابہ کرام کے عہد میں، خاص طور پر پیغمبر اکرم ﷺکی وفات کے دوران اور بعد، اختلافات اور تنازعات آج زمانے سے زیادہ خطرناک تھے، کیونکہ ہم صحابہ کرام ؓ کی وجہ سے اس دین کے تعمیر مکمل ہوکرپہنچایا ہے، ہمارے لئے کام اتنا ہے کہ صحابہ کرام جو راستا دکھادیاہے صرف اسے پر چلنا ہے، اور اس د ین کو محفوظ رکھنا ہے جب تک کہ ہم مقصد تک نہ پہنچ پائیں۔
جہاں تک کہ، صحابہ کرام نے دین اسلام سے زمین کو تعمیراور آباد کرنے کیلئے آئے تو سب کچھ خام تھا۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے پرکھا ہے،مگر وہ لوگ اخلاص اور ایمان کے ذریعے اس دین کو تعمیر کر دیا ہے۔ اسے لیے ان کا کام زیادہ مشکل تھے، کیوں کہ تعمیر کا کام ہمیشہ مشکل ہوتا ہے، مگر عمارت کو ایمانداری سے برقرار رکھنا زیادہ مشکل ہوتا ہے، اور کبھی تعمیرات مسمار کرنا سخت مشکل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ کچھ لوگ کو صحابہ کے راستے اور ان کی پسند کے علاوہ دوسروں کا انتخاب کرنے پر بھی تیار ہوئی،اور یہ لوگ کہتے کہ وہ سب سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، اور افاضلوں سے زیادہ آگاہ ہیں، حالانکہ یہ ضلالت میں دوبتے رہتے ہے۔ در حقیقت، صحابہ کرام کے زمانے سے قدریہ، مرجعہ، معتزلیہ و غیرہ سے بدعت کا آغاز ہوے تے۔
اسلامی قوم کی تقسیم کا آغاز
پھر، نتیجے میں، امت اسلام کئی حصوں میں تقسیم کردیا گیا، یہ سچ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ہمارے آقا خالد بن ولید ؒ کی مشور کہانی میں ہمارے آقارسول خدا ﷺ نے علی ؓ کو مال غنیمت جمع کر پانچ حصہ سے ایک رسول ﷺ سے لینے کیلئے بھیجا، ایک صحابی نے ہمارے آقا علی ؒسے نفرت کی تی۔ اور یہ ہوا کہ ہمارے آقا علیؓ نے خمس میں سے کسی چیز کا انتخاب کی اور اہل بیت کا حق لینے کے بعد اسے اپنے لئے کچھ لے لیا۔وہ صحابی نے علی ؓ سے بہت نفرت کی تی اتنا نفرت، جب وہ رسول ﷺکے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا، اے فلاں: کیا تم علیؓ سے نفرت کرتے ہو؟ صحابی نے فرمایا: ہاں، یا رسولاللہ۔ دیانت دیکھیں!!! اس نے ﷺ سے کہا: ہاں یا رسولاللہ، مجھے اس سے نفرت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے نفرت نہ کرو۔ کیونکہ علیؓ جو لیا ہے اسے زیادۃ اس کی حق میں شامل ہے اور علی میرے بعد آپ کا آقا ہے، من کنت مولاہ فعلیٌّ مولاہ، او کلام یشبہ ہذا
اور بُریدہ ؓ کی یہ حدیث کئی کتابوں میں آئی ہے، اور اس کی اہمیت کیلئے یہ بتانا ضروری ہے:
بُریدہ ؓ یعنی: ابن الہسیب - انہوں نے کہا: ''میں نے علی ؓسے نفرت کی تی جیسے میں نے کبھی کسی سے نفرت نہیں کی، اس نے کہا: میں قریش سے ایک آدمی کو پیار کرتی تی, اس محبت بس علیؒ ؓسے نفرت کرنے کی وجہ سے تھی، اس نے کہا: تو قریشی کا اس شخص نے ایک لشکر میں بھیج گیا، اور علیؓ سے نفرت کی وجہ سے میں اسے ساتھ دیا۔انہوں نے کہا:تو ہم کو اسیراور قیدیوں ملی، لہذا اس نے رسول ِخداﷺکو خط لکھا : ''ہمیں کوئی یہ غنیمہ تقسیم کرنے کیلئے بھیج دو '' تو ﷺ نے علیؓ کو بھیجا۔
بُریدہ ؓ نے کہا : پھر علی ؓ نے یہ تقسیم کی، چنانچہ وہ سر سے ٹپکتے ہوئے باہر نکلا، اور ان کے ساتھ سب سے افضل ایک نوکرانی بھی موجود تھیں۔ تو ہم نے کہا: اے ابا الحسن، یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا آپ نے اس خادم کو نہیں دیکھا جو اسیر میں تھا، کیوں کہ میں نے تقسیم کی، لہذا وہ پانچویں حصہ میں ہوگئی، پھر وہ اہل بیت میں ہوگئیں، پھر آل علی میں، لہذا میں نے یہ لیا۔
بُریدہ ؓ نے کہا: تو اس شخص نے آقا ﷺکو خط لکھا، تو میں نے کہا: مجھے بیجھ دو، بُریدہؓ نے کہا: تو میں نے رسول ﷺکو رسالہ پڑھنا شروع کی، وہ کہتا ہے : رسولﷺ نے میرا ہاتھ اور کتاب پہ ہات رکھ کر کہا: ''کیا تم علی ؓسے نفرت کرتے ہو؟' میں نے کہا ' ہاں ' تو رسولﷺ نے فرمایا: '' اس سے نفرت نہ کرو، اور اگر تم اسے پیار کرتے ہو تو وہ پیار زیادہ کرو,اللہ کی قسم ہے، آل علی ؓکی حصہ یہ نوکرانی سے زیادہ قیمتی ہے۔'' پھر انہوں نے کہا: رسول اکرمﷺ کے یہ ارشادات کے بعد، میرے پاس علیؓ سے زیادہ عزیزشخص کوئی نہیں تھا۔
عبد اللہ نے کہا۔(یعنی بُریدہؓ کے بیٹا)، اس حدیث میں رسولﷺ کے درمیاں میرے باپ کے علاوہ کوئی نھیں ہے۔(حدیث صحیح ہے)احمدؒ اس حدیث رپورٹ کیا ہے
بُریدہؓنے بیان کی: خدا کے رسولﷺنے یمن کے لئے علی بن ابی طالب کی قیادت میں اور خالد بن ولید ؓکی میں ہوکر دو قافلہ بھیجے، اور ان سے کہا: ''اگر تم مل گئے تو حکمرانی علی ؓ نے سجائینگے، اور اگر تم الگ ہوجاؤ تو تم میں سے ہر ایک اپنی فوج پر حکم ہوگا۔''
بریدہؓ نے فرمایا: ہم نے بنی زید کو اہل یمن میں مقابلہ کیا، اور مسلمان مشرکین کے خلاف نمودار ہوئے، تو ہم نے کچھ لوگوں کو توہین کی، تو علی ؓ نے اس میں سے ایک نوکرانی کو خود لیا۔بریدہ ؓنے کہا: خالد بن الولید نے اس کی بارے میں ایک خط کے ساتھ مجھے رسول ﷺکو بیھیجا، میں نے خط رسولﷺکو دیا اور جب وہ خط پڑھ لیا تورسول کی چہرے پر غصہ نظر ایا اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''علی ؓ کے خلاف یہ مت کرو، کیونکہ وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں، اور وہ میرے بعد تم کا سیدہے۔'' ترمذی ؒ اسے مختصر طور پر بیان کیاہے۔
اسےامام احمد اور البزار نے مختصرا ًاسے نقل کیا ہے اور اس میں: اجملہ الکندی، ابن معین اور دیگر نے اس پر بھروسہ کیا۔ اور ایک گروہ کے ذریعہ اس کو کمزور کردیا، اور احمد کے باقی مرد صحاح کے مرد ہیں۔
بوریدہ ؓ نے فرمایا :رسول ﷺ نے علیؓ کو یمن سے رہنما ہوکر بھیجا، اور خالد بن الولید نے اسے پہاڑی علاقوں پر بھیجا اوران سے ارشاد فرمایا: ''اگر تم مل جاؤ گے تو، لوگوں کو علی ؓ نے رہنما کرینگے۔انون ملاقات ہوئی اورانکو آج سے نہ ملی غنیمہ پایا اوران میں سے علیؒ نے کچھ خود لیا۔ تو خالد ؓ نے بریدہ ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حالات بیان کرنے کیلئے بیجھا، اس لئے مدینہ تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں موجود تھے، اور کچھ صحابہ دروازے پر تھے، تو انہوں نے کہا: خبر کیا ہے، بوریدہ! میں نے کہا: ٹھیک ہے، اللہ نے مسلمانوں کو فتح نوازا، اور انہوں نے کہا: تمہیں کیا واپس لائے؟ میں نے کہا: علیؓ نے غنیمہ سے ایک لونڈی لے گیا، اور میں نبی کو اس خبر سے آیا ہوں“تو انہوں نے کہا: پھر نبی سے کہو، اورمیں خدا کے رسول حالات سنایا، اور اس نے کہا: جو شخص علی ؓ کو نقصان کردیتا ہے وہ مجھے بھی نقصان کردیا ہے، اور جو علی ؓسے اختلاف کرتا ہے اس نے مجھے بھی الگ کردیا ہے، علیؓ مجھ سے ہے اور میں اس سے، وہ میرے مٹی سے پیدا کیا گیا ہے، اور میں ابراہیم کے مٹی سے پیدا ہوا ہوں، اور میں ابراہیم سے بہتر ہوں،اللہ تعالی سب سننے والا اور جاننے والا ہے، اے بوریدہ۔ کیا تم جانتا نہیں ، کہ علیؓ کے پاس اس لونڈی سے زیادہ موجود ہے، اور وہ میرے بعد تمہارا سرپرست ہے؟“تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ آپ سے دوبارہ بیعت کرنے کیئے ہات دو،تو ﷺ نے کہا: دوبارہ بیعت کرنے کیلئے تم باہر کب گیا؟
طبرانی امام نے اسے الاوسط میں روایت کیا، اور اس میں: ایک گروہ جس کے بارے میں میں نہیں جانتا تھا، اور حسین الاشکر: اسے اکثریت نے کمزور قرار دیا ہے، اور ابن حبان اسکو دستاویز کی ہے۔
عبد اللہ بن بریدہ نے کہا: ''خدا کے رسولﷺنے علی بن ابی طالب اور خالد بن الولید کو الک الک ہوکے بھیجا، اورانہیں جمع کر کہا:'' اگر تم ملتے تو علیؓ قائد ہونا چاہئے۔: تو انہوں نے دائیں اور بائیں طرف آگے بڑھا، اور بڑے عنیمت ملی اور اس سے ایک لونڈی کو علیؓنے لیا۔ بوریدہ نے فرماتے ہیں: میں ان لوگوں میں سے تھا جو علیؓ سے زیادہ نفرت کرتے تھے، انہوں نے کہا: پھر ایک شخص خالد بن الولیدکے پاس آیا، اور اس نے ذکر کیا کہ علی ؓنے ایک لونڈی کو لے کر گیا ہے۔ اسے بعد کچھ اور لوگ اسے وجہ سے ہی آیا، لہذ خالد بن ولیدمجھے اس خبر سے رسولﷺتک رسالہ سے بیجھا۔ مینے اس کتاب کے ساتھ رسول خدا کے پاس روانہ ہوا تو انھیں کتاب بائیں طرف سے لیا، پھر میں نے اپنے سر نیچے کیا، اور میں واقعہ پوراﷺ کو سنایا، اور میں نے سخت زبان سے علیؒ کے خلاف کہا تھاپھر میں نے سر اٹھایا، اور میں نے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاتو قریظہ اور ندیر کے دن جیسیبہت ناراض ہو اتھا اور ﷺ کی وجہ سے غصہ ظاہر تھا۔ پھر آنگوں میں آنگ ڈال کر رسول ﷺ نے کہا' 'میں علی ؓ کو پیار کرتا ہوں اورعلیؓؓ نے جو کچھ کیا ہے وہ پورا میرے امر کے مطابق یہ کیا ہے '' یہ طبرانی امام نے کتاب الاوسط میں روایت کیاہے۔
عمر بن ذی مر سے سعید بن وھب, زید بن یشیع, انہوں نے کہا، ''ہم نے علیؓ کہتے ہوئے سنا:'' میں نے ایسے شخص کیلئے تلاش کی جو غدیر خم“کی دن میں رسول ﷺکوجب وہ اٹھ کھڑا ہوا سنا ہے، تو تیرہ آدمی یہ گواہ کیاکہ رسول ﷺ نے علی ؓ کے ہاتھ پکڑ کرفرمایا تھا‘میں جنون کو اقا ہوں علیؓ بھی اسکا آقا ہیں۔اے اللہ جو لوگ علیؓ کو پیار کرتاہے انکو اللہ پیار کریں, اور جو نفرت کرتا ہے اللہ اسے نفرت کریں اور جو علی ؓ کو مدد کیا اللہ اسے مدد کرین۔
ریاح بن الحارپ نے فرمایا؛ کچھ لوک علی ؓکے پاس آکر السلام علیکم یا مولانا کہا تو علی ؓ فرمایا میں کیسے تمیں مولا ہوتاہیں تو انھون نے کہا کہ ہم رسول ﷺ کو سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اس کو علی مولا ہے
ابو طفیل نے فرمایا؛ رسول ﷺ جب کوگوں سے پوچا کہ‘ کیاتم نھیں جانتے کہ میں ہر مومنین کی جان سے بھی زیادہ ہوں انھون نے بولے کیون نھیں تو ﷺ نے علی ؓ کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہاجس نے مجھے اپنے آقا کی حیثیت میں سمجھا وہ علی ؓکو بھی آقا سمجھو“ اے اللہ اسے دوستی رکھو جو علی ؓسے دوستی کرتا ہے اور اس کا دشمن بن جا جو علی ؓ کو دشمن سمجھتا ہے“
ان حدیثوں میں سے کچھ لوگوں نے یہ سمجھا کہ علیؓ رسول خدا ﷺکا وارث ہے،گویا اس کاتاویل دینے کا باعث وہ چچا زاد بھائی ہونا ہونگے، اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بیٹے میں سے ایک موجودہ مرد نہیں ہے۔ اوراس کا تعلق اس کی جسمانی وراثت سے ہے، جس کا مطلب ہے نہ صرف علی، بلکہ عباس بھی، اور دیگر اہل بیت بھی۔
دوسرے لوگ یہ بیان سمجھتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ہمیشہ جسمانی ورثے کی پروا نہیں کرتے، بلکہ یہ معنوی ورثہ کے بارے میں ہے، جو ا فراہمی کے لئے حقدار سے متعلق ہے۔ اور نبوت نہیں، بلکہ نبوت سے خلافت ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ رسول خدا ﷺکے بعد کوئی نبی نہیں ہونگے، لہذا یہ نا ممکن ہے کہ علیؓؓؓ ہمارے آقا، رسول خداتﷺ کے بعد نبی ہوں گے، نہیں، ہم جانتے ہیں کہ نبوت وراثت میں نہیں ملتی ہے، اور جو چھوڑ کے گیا ہے وہ سب کچھ جو ہمارے آقا ابوبکر الصدیق کے قول کے مطابق وہ میراث صدقہ ہے۔، لیکن علی ؒبھی ابوبکرؓ، عمرؓ، اور عثمانؓ جیسے خلیفہ ہے۔ اور ان کا دعوہ تو یہ ہے کہ علی ؓنے بغیر کسی معارضہ سے خلیفہ ہونا تھا۔اور انھوں نے اس حدیثوں سے دلیل ہو کر پیش کرتا ہے کہ براء بن عازب رسول ﷺ سے بیان کرتا ہے: ''جس نے مجھے اپنے آقا کی حیثیت میں سمجھا وہ علی ؓکو بھی آقا سمجھو'' اسے احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، اور اسے احمد نے بریدہؓ کے ذریعہ روایت کیا ہے۔
اور احمد، النساء اور الحکیم کی ایک روایت میں،بریدہ ؓسے،میں جس کو ولی ہے علی بھی اسکو ولی ہے۔
اور ایک اور حدیث میں ہے: ابن اسحاق نے کہا: ''جب خدا کے رسول ﷺ نے سفر چاہے تھے تو، اس نے علی بن ابی طالب کو ان کے اہل خانہ پرخلیفہ کر دیا۔ تو منا فقوں نے اسے دعوہ کیا کہ تمیں رسول نھیں اس کے ساتھ چاہتے ہیں اسی لیے ادھر چھوڑ دیا۔علی ؓنے رسول سے کہا: اے خدا کے نبی، منافقوں نے دعویٰ کیا کہ آپ نے مجھے خلیفہ کیا کیونکہ آپ نے مجھے نیچے کردیا تو میں آیا ہوں، تو ﷺ نے کہا: ''انہوں نے جھوٹ بولا، لیکن میں نے آپ کو اپنے پیچھے چھوڑ دیاکیوں کہ تم نے موسی نبی کو ھارون(صفۃ نبوّت کے علاوہ) جیسا ہے میرے پاس '' تو علیؓ نے مدینہ واپس آیا۔''
اس حدیث بخاری، مسلم میں صحابہ کرام کی فضیلت باب ، اور سیرت میں ابن ہشام موجود ہے۔
خلافت میں ہمارے آقا ابو بکر الصدیق ؓ کی اہلیت
آپ جانتے ہیں کہ بوڑھاپے اور مشق کی لمبائی بعض اوقات علم اور،قیادت کی جگہ لیتا ہے، اور اسی وجہ سے ہمارے آقا ابو بکر الصدیق نے سب سے پہلے خلیفہ ہو کر لوگوں کی رہنمائی کی۔ کیوں؟ کیوں کہ اسے اعمال نے پوری قوم کے اعمال سے زیادۃ وزن کیاگیا تھا، وہ رسول ﷺ کی رہرو اور صاحب تھا، اس کے ساتھ اس نے جاہلیہ کواچھی طرح پہچان لیا تھا، اور اس نے جاہل لوگوں کے دھوکہ دہی اور سازش، ان کے طرز فکر کو اچھی طرح جانتے تھے اوراسلام کی پرورش میں ہی اسلام کے ساتھ دیا تھا، اس نے اسلام کی نشوونما کا احساس کیا اور دنیا کی بھلائی اور برائی اور لوگوں کی برائی اور بھلائی کو بھی اچھی طرح سب سے زیادۃجانتا تھا،سچھائی اور برائی کے درمیان، حق اور باطل کے درمیان الگ الگ کرکے فیصلے کرنے کو بھی قدرت والے تھے۔
ابو بکر ؓ نے ابو عبیدۃ اور عمر الفاروقؓ کو خلافت کیلۓ مقرر کیا تھا، تو لوگوں نے ان میں سے ایک کا انتخاب کی رہی تھی، لیکن ہمارے آقا عمر نے اپنے تجربے اور دانشمندی سے ابوبکرؓ کا انتخاب کیا، کیونکہ ہمارا آقا ابوبکر ایک ایسا شخصیت تھا، جس پر تارکیں وطن مھاجرون اور حامیوں انصار راضی ہوجاتاتھا۔ اور وہ ہی تھی ایک شخص جس پر یہ اوصاف لائق ہوتا ہے، اور اسی وجہ سے ہی عمر ؓ نے اپنی مشہور قول کہی: '' میرے گلے بغیر گناہ کا نشانہ بننا میرے لئے ابوبکر الصدیق شامل ہوئے لوگوں کی رہنمائی کرنے سے بہتر ہے۔''
یہ ساری چیزیں، ہمارے آقا علی ؓکی خلافت سے دور کرنے میں شامل تھیں،، اور اس کے نتیجے میں کچھ لوگوں میں بھیڑ پیدا ہوگئی، جیسے عمران بن حسین، ابن مسعود، زید بن ارقم، عمار بن یاسر، ابو ایوب الانصاری، ابوذر الغفاری، اور دیگر انھوں نے یہ ایک سازش سمجے۔ ہم اب بھی ہمارے ساتھ اس سازش کے بارے میں شکایت کر رہے ہیں، اور کہانی ابھی بھی ہمارے ساتھ ہے، یہاں تک کہ اس دور میں ہم ابھی تک اسپر قابو نہیں پاسکے۔
ابو بکرؓ کے بعد واقعات کی ترقی
جب ہمارے آقا ابوبکر کی وفات قریب آگئی، اور اس نے محسوس کی کہ امت کو ایک مضبوط آدمی کی سرداری کی ضرورت ہے، اس نے ہمارے آقا عمرؓ کو مقرر کیا، اور جب خدا نے حضرت عمر کو شہادت کی خواہش کی، اور وہ چلا گیا تو، عمرؓ نے رسول خدا ﷺکے چھ صحابہ کرام کے مابین ایک مشورہ ہو کر چھوڑ دیا۔
پھر انتخاب عثمان پر پڑا۔ تو کچھ لوگ بنو امیہ کو نہ قبول کرتے ہیں، اور کچھ لوگ ان کو قبول کرتے ہیں، اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت کیا ہوا تھا۔ چنانچہ عثمان کی موت سے پہلے ہی لوگ تقسیم ہوگئے تھے۔ خلافت کو لوگ اس طرح دیکھنے کے لئے آئے گویا کہ یہ خلافت امت اسلامیہ کی رائے کی نمائندگی بھی نہیں کرتا ہے اور نہ ہی اس میں اتفاق رائے کی نمائندگی کرتا ہے۔ خاص طور پرجب عثمان ؓنے انہیں حکمران اور دیگر معاملات میں آل اُمیۃ کو بھی موقع دیا، تومصر سے انقلابی سے باغی لوگوں مدینہ آیے اور کشیدگی پھیلا دیا۔ اس وقت میں صحابہ میں کچھ لوگ گھر کے اندر ہی رہ کر اس واقعات سے دور رہا اور کچھ لوگ اسی واقعات سے باز رہنے کیلئے مدینہ سے چل گیے تھے اور کچھ لوگ ان واقعات میں شامل کر گناہ کی ایک حصہ لیا۔اسی وقت کے بارے میں علماء کے درمیاں مختلف آراء موجود ہے
علیؓ کرم اللہ وجھہ کے عہد میں کشیدگی کی پھیلاو
ت حضرت عثمان ؓکی شہادت کے بعد، صحابہ کرام علیؓ کی جانشینی پرمتحد ہوگئے، مگر تفرقہ شروع ہوگیاتھا۔ وہ لوگ جو عثمان ؓ کو بیھڑ میں مار ڈالے انھون نے معاشرے میں ایک نئی تقسیم سنبھالنے کے خواہشمند تھیں کیونکہ نھیں تو اطمیناں اور سکون سے یہ امر ظاہر ہوتو ان سے انتقام لے جائینگے تاکہ انھون نے عُثمان ؓ کے قاتلون سے انتقام لینے کے لیے آواز اُٹھا یا مگر ادھرقاتلوں کے بغیر کوئی شاہد گواہ نھیں تھیں۔ اگر ہمارے آقا علی رضی اللہ عنہ کو پر سکون اور دانشمندی سے عمل کرنے کی موقع مل گیا تو وہ اس معاملے میں کامیاب ہوجاتے تھے، اور خلیفہ عثمان بن عفان کے قاتلوں کے لئے سزا قائم کرنے میں حق ادا کیے تھے۔
لیکن یہ قاتل لوگ کچھ اور چاہتے تھیں۔ وہ آزمائش نہیں چاہتے ہیں۔ بلکہ، وہ دیکھتے ہیں کہ آزمائش کے بعدکیا نتیجہ آنے والی ہے۔ اگر امام علی رحمۃ اللہ علیہ اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت کریں گے اور ان لوگوں کے لئے عذاب قائم کرناجرأت کرے، تو اس کی قسمت عثمان کی قسمت ہوگی، اور ماحول بالکل ان قاتلوں کی خواہش کے مطابق آپڑیگے۔ ہم اس میں عائشہ ؓ جیسے رہیگے، جب ہمارے آقا عثمان کے قتل کی خبر پہنچی تو وہ ایک عام حالت میں تھی، اسے تکلیف نہیں پہنچی اور زیادہ متاثر نہیں ہوا، اور جب معلوم ہوا کہ اس کے بعدخلیفہ کو مقرر کی ہے، تو انہوں نے کہا: وا عثماناہ، لہذا اس نے تکلیف اٹھائی اور عثمان کے خون کے مطالبے اور انتقام کی قسم سے لوگوں کو اسی لئے قیادت کی۔
حسن رضی اللہ عنہ کا جانشین، اہل السنۃ اور شیعہ کے ظہور
الحمدللہ، امام علیؓ کے بعد،سب ختم ہوا اور ہمارے آقا حسن ؓ خلافت میں تشریف لایا، یہاں جب ہم خلیفوں کوشمار کرتے ہیں تو،چار خلیفوں کو غور کرتا ہیں، اور جب پانچویں اضافہ کرتے توعمر بن عبد العزیز کو اضافہ کرتے ہیں، امام الحسن کے خلافتکے ذریعہ پانچویں کسی نے ذکر نہیں کرتا ہے اور کسی نے اس کی پرواہ نہیں کی جیسے یہ واقع میں نہ آیاہے۔ اور وہاں ابن الزبیر کا تذکرہ ان سے زیادہ کیا ہے!! لیکن تاریخ نے اسے نظرانداز نہیں کیا۔
اس وقت میں اہل سنت و الجماعت کا نام اس اُمۃ کے لئے ابھر آیا، جب امت کے نام اہل السنت و الجماعۃ کے نام سے پیش ہوے تو یہ حقیقت سامنے آگیا کہ معاملہ صرف امویوں کے پاس چلا گیا تھا۔ اور جو لوگ جو اُموّیوں سے مطمئن نہیں تھیں، انہیں ایک اور عقیدہ، یعنی علیؓ کا شیعہ سے پیش آئے، اور اس مذہب میں مبالغہ کا اعلان کرنے کا موقع بھی ملا۔
یہ شیعہ ہمارے آقا علیؓ کے عہد میں ہی پیدا ہوا تھا، اور ابی بکرؓ اور عمرؓ کے زمانے میں ہی علیؓ اوراہل بیت کا پیار کرنے والوں موجود تھے بلکہ، وہ اتنی سخت نھیں تھا اور نہ ہی اس شدت پسندی کے ساتھ تھے۔ اور حسنؓ نے خلافت معاویہؓ کو حوالے کرنے کے بعد، ''اھل السنۃ والجماع'' کا نام یا اصطلاح زیادۃظاہر ہوا، اور دوسری طرف شیعہ کی اصطلاح ظاہر ہوئی۔ پھر اہل سنت و الجماع' کے عقیدہ جاری رکہا۔ اور خوش قسمتی سے ان چار مشہور مذہب کی اماموں اور دیگر مذاہب کے اماموں,ظاھریّۃ، اور ابو ثور اور دیگر، یہ سب اہل السنۃ کی یہ سلسلہ میں آیا ہے۔
مغربی ممالکوں کا حملہ اور اتحاد پھاڑنے کا دور
اس طویل سفر اور حکومت کے اتار چڑھاؤ، سے عقیدت کے شاخوں میں کئی دوسرے فرعی مذاہب نے جنم لیا، یہاں تک کہ جب ہم گیارویں صدی ہجری تک آئے، جب برطانیہ، فرانس، پرتگال، اور دیگر ممالک نوآبادیات کی لیبل میں اسلامی ممالکوں پر قبضہ کیا اور ان کے سامان لوٹنے شروع کیا۔
اس کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ اسلام سے کچھ لوگوں کی مرتد ہوگئے، اور اسلامی اداروں موت پایا یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو بچانے اور دوسری بہنوں کو راحت فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے، اور ابھی یہ دوبارہ نوآبادیاتی کے خواب مختلف شکلوں یا راستے میں آج تک طاقتور ریاستوں کی روحوں کو حیرت میں ڈالتا ہے!! تیل لوٹنے کے بارے میں سوچ رہا ہے؟ ان ترقی پذیر اسلامی ممالک میں موجود دیگر سامانوں کو کیسے لوٹ سکتا ہے؟، وہ کیسے ان کی تفریق اور انحراف کے باوجود لوٹنا کرسکتے ہیں؟۔
بہت سی ذہنی بیماریاں، اور مزید بدعات ظہور ہوے، اس لئے علماء ان کے علاج کے طریقہ کار میں مختلف ہونا شروع ہوگئے۔ ہر مریض، اگر اسے معاشرے میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں مل پاتی ہے تو، ایک نظریہ سامنے لا کر معاشرے میں اپنے لئے جگہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے!!! صرف اختلاف رائے کی وجہ سے اسلام میں بھی کفر کرنے آئے ہیں!! ہم بغیر پوچھ گچھ کے شناخت سے انکار کرتے ہیں، اور دوسرے کو کافر کرنے کی بدعت پھیل گیا۔ جب آپ تاریخ کی کتابیں پڑھیں گے، آپ کو کچھ پرانی کتابوں میں، خاص طور پر ہمارے حنبلی برادران (اللہ انھیں رحمت اور مغفرۃ عکافرمایں) بدبختی کی جڑیں ہیں، جسمیں امام ابوحنیفہ کا کفارہ، امام الشافعی کا کفارہ، اور ہرجو اختلاف کرتے ہیں اس کا کفارہ موجود ہ ہے۔ اگر یہاں تک کہ عبد اللہ بن الامام احمد، یا ابن ماندہ،، یا دیگر کتابیں پڑھتے ہیں تو، آپ ان میں لکھا ہوا پائیں گے کہ یہودی ابو حنیفہ اس سے بہتر ہیں! ان میں سے کچھ روایت کرتے ہیں:
''امت میں ایک محمد ابن ادریس نامی شخص ہے وہ ابلیس سے زیادہ شرارت ولا ہے۔''!!!
اور محمد ابن ادریس شافعی ؒ امام ہیں، خداوند کریم ان سے راضی ہو اور قریش۔
مذہبی کشمکش کا آغاز
فتنہ کئی اور مختلف ہو گئے۔ایک طرف سے دہشت گرد پسند والوں کا کشمکش،اور اسلامی ممالکوں میں جاسوس ہو کر کام کرنے والوں کی فتنہ،اور کچھ اولیاء یا صالحین سے نفرت پیدا کرکے کشمکش اوردوسرے طرف سے شہرت اور نام یافتہ ہونے کو کچھ لوگوں کا کشمکش, دوسروں پر قابو پانے کیلئے ظلم و عداوت، اور خون خرابے اور غیر منصفانہ قتل و ظلم۔ تو اس سے بہت کچھ نکلا، اور ہم آج بھی اس سے دوچار رہتے ہیں۔
ان میں سے اکثر اسلام میں مختلف فرقوں کے ظہور کے ساتھ ہی پیدا ہوئے تھے، او یہ شاذ و نادر ہے کہ ایک بدعی ہونے کے ساتھ جو مسلمانوں اسکو سامنے کڑھتے ہے اسے نفرت اور کراہیت کی بغیر بچھنا اور ان میں سے بیشتر اسلامی گروہوں کو افتراء پھینک دینے اور الزام لگانے سے ناکام بھی نھیں رہیگے جیسا کہ خوارجون نے علیؓ کے ساتھ کیا تھا، اور ان کے جانشینوں اشعری اور ماتریدی باشندوں سے کفر کے الزام لگایا ہیں جو انھوں ہی ہے اس امۃ کا بڑا حصہ۔
جب شیخ محمد بن عبد الوہب آمد ہوئے، قوم اسی طرح کی صورتحال میں تھے جیسے آج ہماری قوم پیش کر رہی ہے، ایک تجدید کی اشد ضرورت میں تھی، جزیرہ عرب کے کچھ حصوں میں توحید کا نشر ان کا ایک قابل قبول کال اور منصفانہ بات تھا، لیکن ان کے پیروکاروں کا یہ دعوی کہ پوری قوم حقیقی توحید سے ہٹ گئی ہے۔ ایک باطل اورنا قبول دعویٰ ہے، اور اگر خیالی طور پر ہم اس امت کے انحراف کے دعوے میں کوئی دلیل قبول کرتے تو بھی، جس کا انہوں نے حوالہ دیا ہے،مگر پورے امت کو کافر سمجھنا کیسے صحیح اثبات کر دونگا۔
اسی میں اکثر مبتدع والوں سے مطابق ہر ایک جو ان کے سامنے معارضہ سے کھڑا ہے, وہ جو بھی ہو, ان کا مقام و علم و صداقت میں اس کا رتبہ دیکھنے کے بغیر انکو بھی کفر کی الزام سے انھون نوازا ہے۔جب امت کے علماء کرام ان کی بات مانتے رہے تو. بدقسمتی سے، اس معاملے میں شہد میں زہر شامل کیا گیا۔
اور اس لئے کہ جن چیزوں کو وہ کفر اور دین سے انحراف سمجھتے تھے وہ خالص اسلام اور ایمان اور اس کے تقاضوں کے سوا کچھ نہیں تھے، جو اولیاء اور نیک لوگوں کی محبت، ان کی برکات لینا، پیغمبر ﷺکی محبت، اس کی با برکت قبر شریف زیارہ۔مگر آج مسلمان کو بہت سے حالات میں یہ بولنے کہ میں نبیﷺ کی مقبرہ زیارہ کیا شرمندہ کی بات ہوتی ہے,بلکہ اسے یہ کہنے کی ضروری پڑتی ہے کہ میں مدینہ کی مسجد میں گیا تھا یا رسول خداﷺ کی مسجد کا دورہ کیا و باالحال یہ سنّت بھی ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابیوں نے رسول کے تھوک سے برکت پائے، اس کے بلغم سے نوازے، اس کے بالوں اور اثرات سے برکت لیے، بہت سی چیزیں جو آپ سب جانتے ہیں اور پوشیدہ نہیں ہیں۔ تاہم، کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ برکت لینے والوں مشرک ہیں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود سے خالد بن الولید کو اپنے بال دیا تھا، اوروہ ہی ابو موسی اور دوسرے صحابہ کے مابین اپنی بال تقسیم کی، ہم سب کو یہ معلوم ہے۔ اور یہ کہانی جب صحیح السنہ اور کتاب السیر میں ایسے آئی ہے:
جب خدا کے رسولﷺ، اس نے ذبح کیا، اس نے نائی کو بلایا اور اپنا سر منڈوا دیا، اور اس نے نائی سے کہا، وہ معمر بن عبد اللہ بن ندال بن عبدالغزاء بن حرثان بن عوف ہے، اور مسلمان اس کے بال پوچھتے ہوئے آئے - اور وہ اس کی طرف دیکھا اور کہا: اوہ معمر، خدا کے رسول آپ کے لئے اس کے کان کے لب سے آپ کے ہاتھ میں دیا ہے۔ معمر نے کہا؛ یہ اللہ کا ایک عظیم بخش ہے مجھے لئے۔
اس نے حجام سے کہا: اور اس نے اپنے دائیں طرف کی طرف اشارہ کیا، اور جب وہ ختم ہوا تو اس نے اور جب اسے فارع ہوے تو وہ پاکیزہ بالوں کو صحابہ کے درمیان علی ؓ نے تقسیم کردیا پھر اس نے نائی کی طرف اشارہ کیا، تو اس نے منڈوا دیا اور ابو طلحہ کو دیا
ابن سعد نے کہا: اور اس نے اپنا سر منڈوا لیا، اپنی مونچھوں اور پیٹھوں کاٹ کر دیا، انگلیوں کو کھاٹا، اور اپنے بالوں اور ناخن کو دفن کرنے کا حکم دیا۔
بخاری رحمۃللہ علیہ نے ابن سرین سے انس رضی اللہ عنہ کی اتباع سے روایت کیا، - کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے سر منڈواتے ہوئے تو، ابو طلحہؓ ﷺ کے بالوں کو لینے والے پہلے شخص تھے۔ یہ مسلم ؓ کی حدیث سے تعرض نہیں ہوتاہے کیوں کے ابو طلحہ ؓ نے بائے حصہ لیا، لیکن مسلم نے انسؓ کی حدیث سے یہ بھی بیان کیا کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،جمرہ کا پتھر پھینک دیتے ہیں اور ذبح کرتے ہیں، اور نائی نے اس کا دایاں طرف منڈوایا، پھر اس نے ابو طلحہ الانصاری کو بلایا اور اسے وہ دے دیا۔ پھر اس نے اسے بائیں طرف توجہ کر اس نے کہا: مونڈو، تو اس نے اس کو مونڈ دیا، ابو طلحہ نے اسے دیا اور کہا: میں لوگوں میں تقسیم کر دو۔
اس روایت میں - جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ - ابو طلحہ کا حصہ دائیں طرف تھا، اور پہلے یہ بائیں تھے، اور روایت میں ہے کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے ام سلیم عطا کیا، اور اس میں مخالفت نہیں ہے کیونکہ وہ تو اس کی بیوی ہے۔، اور تیسری روایت میں: اس نے ابو طلحہ کو اپنے بائیں سر کے بال دئے، پھر اس نے اپنے ناخن کاٹے اور لوگوں میں تقسیم کردیا۔
جب وہ منڈوا رہا تھا تو خالد بن الولید نے اس کی ٹوپی کی پیشانی کی جگہ میں اس سے ایک بال رکھ کر دیا،اسی وجہ سے ہر جنگوں میں ان کو فتح بازی ملتی تھی
یہ کہ خدا کے رسول،ﷺ، اسے اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیا اور اس کو حاصل کرنے میں انھوں نے جدو جہد کیا تاکہ اس میں برکت پائے۔ یہ تو کیا ہے رسول ﷺ شرک کے لئے یا لوگوں کو کفر کی طرف بلائے۔ اور اس میں ایکلیکن ان لوگوں کی مبالغہ آرائی ایک ''خطرناک مرحلے'' پر پہنچ چکی ہے، کیونکہ ان میں سے بیشتر کا دعوی ہے کہ ان سے متفق افراد کافر ہیں!! '' دوسروں نے توسیع کرتے ہوئے کہا: نہیں۔ یہاں تک کہ جو شخص اس کے کفر کے بعد اسے قبول کرتا ہے یا اس کی منظوری دیتا ہے وہ کافر ہے، کیونکہ کفر کی رضا مندی ہی کفر ہے۔ ہمارے بھائی، اصحاب التسییس آئے اور انہوں نے تکفیر میں الحاکمِ کو بھی شامل کر دیا، اور وہ لوگ جنہوں نے اس کو مانتا ہے انھوں کو بھی کافروں میں شامل کر دیا! کفر کی الزام لگانے کی یہ بغاوت پھیل گیا۔ اور پھر سید قطب رحم اللہ علیہ آئے اور اس میدان میں ایسی کتابیں لکھیں جس میں اس نے ایسی باتوں کے بارے میں عیاں و بیاں سے شامل کر دیا۔
یہ سب جب آپ اسے ایک جگہ ملا دیتے ہیں، اور اسے شیخ محمد بن عبدالوہاب کی آراء سے تفتیش کرتے ہیں تو، آپ کو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہماری قوم کس چیز میں پھنس چکی ہے، اور اس کے نتیجے میں پرانا نام سے ایک نیا چیز پیدا ہوا: ''السلفیۃ''۔ اس نوزائیدہ نئے احکام نکالینے کو بہت محنت کی ہیں جوانھوں کہتا ہے کہ جو سوائے ان احکام ماننے والوں بالکل مسلمان بھی نہیں رہتے ہیں، ان کے پاس علماء فقہ کوئی کردار نھیں ہے اور ان کے وجود بھی ان لوگ شمار بھی نھیں کرتے ہیں۔
عیسائیوں نے اس میں حصہ لیا، جب انہوں نے نوآبادیات کے لیبل میں اسلامی ممالکوں پر حکمرانی کی، اور حال ہی میں آنے والے نئے لوگوں نے ان کی مدد کی کیونکہ وہ فقہا کو قبول نہیں کرسکتے تھے۔ کیوں کہ فقہائے کرام کی رائے ان کی رائے سے مختلف ہے, فقہا کے ذوق، طریقہ کار اور حتی, سلوک میں بھی مختلف ہیں، کیوں کہ فقہا کے ہر قول کو کسی حدیث یا قرآنی آیت کے ذریعہ محدود کرتے ہیں، تو علم ہونے کے بغیر خو د اجتہاد کرنے شروع۔ اس انفرادی فقہ کے نتیجے میں بہت ساری چیزیں سامنے آئیں۔
اسلامی ممالک میں ہی حملہ کیلئے دشمن کے منصوبے
جب امریکہ اسلامی دنیا سے ایک ایسی طاقت بننے اور ابھرنے کے خواہاں رکھے جو تاریخ کے انتہائی اہم اور عظیم اسلامی ممالک میں تغیر کی جھنٹے سے آکر اس کو مار ڈالنا، تو امریکہ میں دھوکے باز مسلمانوں کو افغانستان میں سوویتوں (soviet)سے لڑنے کو پر کشش متوجہ کی، اور ان ممالک کے لوگ ان ممالک سے بھاگ نکلے اور ان میں سے بیشتر شہری، بیروزگار اور طالب علم تھے۔
امریکہ نے خاص طور پر ایک ہی عرب اسلامی ملک کو استعمال کیا، اور انہیں اپنے لوگوں کو سوویت سے لڑنے کیافغانستان سے سونپی، گویا اس میں اور ایک بات موجود ہے کہ سوویت میں زیادہ تر آرتھوڈوکس ہیں، امریکہ میں اور الگ عیسائی گروہ ہے۔
اور ان جوانوں نے افعانستان جانے اور ملاقات کے بعد، انہیں جنگ کے فنون کی تربیت دی گئی، ہتھیاروں کا استعمال سیکھا، اور جو تکنیک عادی طور پر عرب اسلامی دنیا میں موجود تھی وہ سب حاصل کی، اور جب روسیوں ()کے ساتھ معاملہ ختم ہو گیا تھا، اور وہ آپس میں قاتل ہونے لگے یہاں تک کہ یہ معاملہ اس تک پہنچا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو ہلاک کردیا جب تک کہ انکو شکار بن گئے لوگوں میں شیخ عبد اللہ عزام اور اس کے بیٹے تھیں، اورچھوڑی خلاف کی وجہ سے، اگر ان میں سے ایک اور مجاہد کو نقاب پہنے ہوئے دیکھے، یا اسے ساتھ آیات مل گئیں، تو دوسرے نے اس سے کہونگے کہ تم مشرک ہو! یا کافر! سلفیوں اور دیگر وہابیوں کے مابین اختلافات شروع ہوگئے۔ جب تک کہ کچھ اسکالرز نے اس مشکلات کو ختم کرنے کیلئے بہت کوشش کی ان میں سے ہی ایک یہ مجھے بتایا۔
پھر تالباں بھائیوں نے بھی ایک اور کام انجام دیا، جو ایک نئی قانون سازی تھا، جو اس کے بیشتر حصوں صحیح ہے جو حنفی مذہب والوں ہے، سوائے اس کے حقیقت میں اس میں درستگی اور حکمت کے برخلاف دوسری چیزیں شامل تھیں، لہذا انہوں نے کچھ ذیلی کاموں اور فرعی مسائلوں کو سخت کردیا۔ جہاں تک کچھ اہم فرائض کے بارے میں جو ایک مسلمان موجودہ دور میں ضرور مشغول رکھنا چاہئے، ان کو نظرانداز کیا گیا، لہذا نے کمال کے ساتھ ٹھوس اور دانشمندانہ بنیاد پر ریاست اسلامیہ کے ینیاد ڈالنے کو چھوڑ دیا، اور پردے اور خواتین کی پرواہ کی، اور انہیں گھر میں ہی رہنے دیا،یا دھونے اور کھانا پکانے میں کام کرنے میں قید کر دیااور عام و تعلیم سے منع کر دیا۔
اور پھر انکو مخالفہ کرنے لوگ سے کفر کا الزام لگانے کو ایک نئے بات میں انھوں تفکیر کی۔تو ان کو ایسی چیزوں کے سوا کچھ نہیں ملا جس میں اسلام نے طویل عرصے سے مذہب یا عقیدے کو اسے کوئی نقصان نہیں دیکھا ہے۔ یہ چیزیں فجر اسلام کے بعد سے ہی موجود ہیں اور مسلمانوں نے ان پر توجہ نہیں دی۔ مسلمانوں نے توحید اور عقیدے میں ثبوت ملنے کے بعد اسے تباہ یا محفوظ نہیں کیا۔ یہ افغانستان میں بدھ کے مجسموں اور مصر میں فرعونوں کے مجسموں کی طرح ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے اس ساری چیزوں کا خیال نہیں رکھاتھا۔ بلکہ، وہ ان کو خدا کی قدرت کی نشانیاں سمجھتے تھے۔خدا نے انہیں اپنے ظلم و جبر کے ساتھ ساتھ ہلاک کردیا، جیسا کہ خدا نے فرعون کے بارے میں ارشاد فرمایا:“ تو آج ہم تیرے بدن کو بچالیں گے تاکہ تو پچلوں کے لئے عبرت ہو اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں“
اور یہ بھائی لوگ ان کے اس عقیدے میں ان کی تائید کے لئے کچھ تلاش کرنا چاہتے ہیں کہ سوائے ان لوگ مسلمان کو کافرکرنا ہیں، اور، لہذا بدھ، فرعون، اور دیگر بتوں کو بھی ہٹا دیا جانا چاہئے، اور اس وجہ سے نہ ہوا کہ مغرب کے ذہنوں میں اسلام سے شدید نفرت اور امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کو خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے۔
اور افغانستان میں جہاد کرنے والے واپس آنے کے بعد، عرب ممالک میں موجودہ حکومتوں کے خوف کی راہ میں رکاوٹ ٹوٹ گئی اور مخالفین کے ساتھ ان کا جبر، جو افغانستان کی جنگ کی کہانی کو بھڑکانے والے ممالک کی طرف سے جان بوجھ کران کے خلاف ایک اور منصوبہ بنا ہوا معاملہ تھا۔ امریکہ نے ان کے اور حکمرانوں کے مابین لڑائی سے متوجہ کردیا۔ چنانچہ احکمرانی نے ہر ایک کوجیل میں غائب کردیا، اور کچھ لوگ نے بھاگتے ہوئے بنیادی کفر کے خلاف اپنے آپ کو لامتناہی جہاد کے لئے تیار کیا جس کی وجہ سے مسلمان ان کی رائے کے مطابق کفر میں گر چکے ہیں۔
قوم اسلام تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ امریکہ کے لئے پہلا ھدف یہ تھا کہ سوویت رشیا سے مقابلہ کرنا، یا کمیونزم کا مقابلہ کرنا اور اسے افغانستان میں دخول سے شکست دینا, مگر اسلام کی نظر میں ایک کمیونسٹ کافر، اور نہ کمیونسٹ کافر کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، جو کمیونسٹ نہیں ہے، اس بات کو معلوم ہونے کے ساتھ کہ متعدد عالمی ممالک اور کچھ مسلمان ممالک نے اپنی معاشی پالیسیوں میں مغرب اور امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کے بدلے سوشلسٹ نظام کو اپنایا ہے۔مگر اسلام کی نظر ایک الگ ہے کیونکہ اسلام نے ہر شخص کی حقوق کی نگہداشت میں، خوردہ املاک کے حق میں غیر منصفانہ پابندی کے ساتھمداخلت نہیں کی ہے، اگر مدخلت کی ہو تووہ ہر شخص کے نفع یا فائدہ یا حق کے تحفظ کیلئے، اور انسان کو انسانی جبر اور لالچ سے بچانے کے لئے، اور اپنی خواہشات اور سنجیدگیوں کو بہتر بنانے کے لئے ہے تاکہ اس قائدہ کے مطابق کہ ''لا ضرر ولا ضرار '' اور صرف مداخلت کرتا ہے کہ کمزوروں پر قوتوں کے ظلم و ستم کو روکا جانا اور، لوگوں کے مابین تعاون کے افق کھولنے کیلئے۔ ''
اور وہ تمام بنیادیں اور نظام جو اسلام لائے ہیں وہ ایک ہی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، خداتعالیٰ کے اس ارشاد کو دیکھیں؛(نیکی اور پرہیزکاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں کسی کے ساتھ تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نھیں کہ اللہ کا غذاب سخت ہے“ (مائدہ۔۲)
اسلام نے مسلمان آدمی کو توحیدو عبادت کوان کے طاقت کے مطابق کرنے کو بس حکم دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا ذمہ ددار نہیں بناتا,اچھے کام کرے تو اس کو ان کا فائدہ ملے گا برے کام کرے تو اسے انکا نقصان پہنچے گا“ (البقر:: 286)
اسلام نے معاملات میں، اچھائی کی محبت کا مشورہ دیا گیا ہے، اور اچھائی کو تمام لوگوں کے لئے کیا ہے، نقصان اور تکلیف پہنچانے سے دور رہا ہے، اور لوگوں کو احترام اور بلائی کے قانوں سے حکم دیا ہے۔
آئیے ہم ایک ایسی جگہ پر واپس آجائیں جہاں ہم نے سوویت روسیوں سے لڑنے کے لئے امریکہ اوران کے پراکسیوں،مسلمانوں کو استعمال کیا تھا، اور اگر یہ خدا کی راستے پر ہوتا، جیسا کہ ابتدا میں اعتقاد جاتا تھا۔
یہ بھی ممکن تھا کہ امریکہ اپنی فوج بھیجے اور ہمارے اسلامی ممالک سے اس مشن میں باقاعدہ فوج بھیجنے کے لئے کہے، تاکہ ان میں سے کوئی بھی معاملہ پیش نہ آیا،۔ اس خطرناک انتظام کے پیچھے امریکی مقصد، جس میں سے کم از کم یہ تھا کہ افراتفری اور عدم تحفظ کو پھیلانا، اور موجودہ اسلامی حکومتوں کو تبدیل کر ان کی جگہ دوسرے حکزمت کولانے کا منصوبہ تھا۔
اور جب ان کی افغانستان سے واپسی کے بعد ایک ایسے جمہوری نظام کی پیروی کرنے والے یورپ اور امریکہ کے ممالک میں کوئی پناہ نہیں ملی، اگرچہ یہ ان کے لوگوں کے لئے تفصیلی اور درست طور پر مفصل ہو تو بھی ہجرت کر گئے جہاں سیاسی اسلام کے پیروکاروں کی بہت سی تنظیمی دھاریں ان سے پہلے ہی وہاں آباد ہوگئیں تھیں۔ یہی امریکہ اور یورپ کے کچھ ممالک ان کی سرزمین پر ان لوگوں کی موجودگی کو ایک بہت بڑا خطرہ سمجھا، اور فرانس ایسا تھااور کہا جاتا ہے کہ سارکوزی نے کہا: پچیس سال بعد، یعنی 2025 ء کے بعد، ایک مسلمان وزیر اعظم فرانس میں آسکتا ہے۔ یا اسی معنی پہ دوسرا الفاظ ہے۔ برطانیہ کو بھی ایک ہی چیز سے خوف تھا... جرمنی بھی وہی ہے، اٹلی بھی ایک ہی ہے، یہ سارے ممالک اسلام سے ڈرتے ہیں، مسلمانوں سے ڈرتے ہیں اور عالم اسلام میں ہی زیادہ پیدائشوں سے ڈرتے ہیں، تو پھر ان کے وطن کی مسلمان کی پیدائشوں کا کیا حال ہے! اسی طرح، یہ ممالک ہمارے پٹرولیم اور دیگر معدنیات کے ساتھ ساتھ یہ ممالک اسلامی لہر اور تیزی سے ہر جگہ پھیلنے سے خوفزدہ ہیں۔
اسی وجہ سے ان لوگوں کو ان ملکون میں آباد کرنے کو منع کیا جیسے برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ کیا تھا، وہ ہمارے بھائیوں کو جو ظالموں کے جبر سے بے گھر ہوکر تیونس لائی، اور یہاں مصر، لیبیا انھیں لے کر آئیں، لیکن بدقسمتی سے امریکہ کے لئے وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے جس کی وجہ وہ صرف خدا ہی جانتا ہے۔ وہ اس نوعیت کے اسلام پسندوں کے زیر اقتدار ریاست قائم کرنے کے امکان نہیں تھے، اور یہ خیال اسلامی خلافت کے قیام کا خیال ہے، اور امریکہ جانتا ہے کہ ہمارے موجودہ حالات میں یہ تقریبا یہ ناممکن ہے... یہ خلافت کیسے قائم کرتی ہے؟ یہ کیسے ممکن ہوتا ہے؟ مگر خدا ہر چیز پر قادر ہے، اور خدا بہتر جانتا ہے۔
لیکن یہ مقصد یہ تھاکہ کسی ریاست، یا کسی ریاست پر حکمرانی کرنا، نہیں۔ اس کی ابتدا ایسے ممالک سے ہوئی تھی جو اسلام سے اتنا بڑا تعلق نہیں تھے مگر اسلامی ممالک تھے انہوں نے اس کی شروعات کی تھی۔ جب یہ سب غائب ہوجائیں گے تو، باری دوسرے اسلامی ممالک پر آئے گی۔ انہوں نے اس کے لئے بغاوت کی بیج بوئے اور مناسب وقت ہونے تک چھوڑ دیا۔ خدا تمام مسلمان اس سے حفاظت کریں۔
جنوبی سعودی عرب میں، بحرین میں، یمن میں، اور سریا میں، مشاکل اور مصیبات پھیل کوئی زیادہ خوفناک پریشانیوں عراق میں، اور دیگر مقامات میں بھی انکشافات ہوں گے۔
وہ ایران کو دھمکی دیتے ہیں، لیکن وہ ایران کو ختم نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ بس اسلامی ممالکوں کے ڈر سے نھیں، بلکہ ان کے مفادات کا خاتمہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کو تحفظ فراہم کرنا ہے.۔ ان کی پریشانی یہ ہے کہ عرب ممالک کو تباہ کریں اور ان عرب ممالک میں بغاوت کا بیج بوئے، جس کی بقاء سے اسلام بھی باقی رہے گا، اور اگر عرب گر پڑے تو اسلام گر جائے گا، جیسا کہ مولانا شیخ ابراہیم نیاس نے کہا: اسلام سوائے عربوں سے زیادہ مضبوط ہ ہوتاہے، لیکن موجودگی عربوں میں ہے۔ اگر آپ عربوں کو ختم کردیں گے تو، اسلام مٹا دیا جائے گا،“
صوفی آقاؤں کا کردار اور ان کا موقف ان واقعات پر
ہم نے کہا ہے کہ فقہاکا بااثر کردار تقریبا ختم یا غائب ہوچکے ہیں، اور صوفیوں کا کردار بھی ختم ہوا یا گمشدگی ہوا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ فقہاء جو فقہ ظاہری کو لے کر چلتا ہے، اور صوفیاء جو اندرونی باتین کا خیال رکتھے ہیں، مگر ادھر آج کی زمانے کی عام معنی ارادۃ کیا ہے جس کے حوالے سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ صوفی لوگ دنیا کے کسی بھی فرقے سے زیادہ ہیں۔ لیکن وہ دوسروں کی طرح زندگی کے سب سے اہم شعبوں میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے بہت سے لوگ ان کو اقلیت سمجھتے ہیں۔، اگر ہم علمائے کرام کے درمیان مذکورۃ معنی کے ساتھ ان کی طرف دیکھیں تو انہیں مسلمانوں کا سب سے متعددفرقہ ہوکر سمجھ سکتھا ہے۔ چاروں مذہب کی اکثر علماء عصر نے صوفی لوگ ہے جنوں نے اندرونی حکمتوں، یقین، اخلاص اور تقویٰ سے منسلک ہیں، اور اسی طرح فقہا، مفسر اور علم کے تمام علمبردار، یہاں تک کہ امام ابن تیمیہ اور ان کے طلباء جیسے ابن القیم، ابن رجب اور دیگر اور چار مذہبوں کے فقہاء ان کی کتابیں ہمارے کہنے کی گواہی دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ اسلامی تنظیمیں، جن میں سے بیشتر نے اپنی زندگی کے تمام شعبوں تصوف کیلے وقف کر لیا۔یہاں تک کہ اخوان المسلمون کا پہلا رہنما اور بانی تصوف یا صوفی ازم کا مخالف نہیں تھا، یہ تھیں ان کی دعوۃ:(ایک سلفی دعوہ، سنی طریقہ، صوفی حقیقت، سیاسی ادارہ، تجربہ یافتہ جماعت، سائنسی اور ثقافتی انجمن، معاشی تنظیم، اور معاشرتی خیال)۔
اس کے نظر سے ان کے پیروکاروں میں ہوئے پلٹ اسے نقصان نہیں پہنچاتا ہے۔میں نے ان میں شامل ہوئے سید سعید حوثی کو مدینہ منورہ سے ملاقات کی، اور اس موقع پر ان کے خیالات اچھے تھے، انہوں نے مجھے اخوان کی صحیح امیج دینے کے وجہ سے ان کا شکرگزار ہوں، اللہ ان پر رحم کرے۔ اور شیخ المرشد صوفی کے ساتھ ان کا وابستگی معروف ہے، اور یہ,ان اور صوفی آقاؤں کے مابین کسی بھی قسم کی دشمنی کی عدم موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور اس کا جائزہ لیں کہ شیخ حافظ کے وجود کے دن اسماعیلیہ شیخ محمد الحفیظ تجانی اور ان کے درمیان کیا چل رہا تھا، یہ شیخ البنّا کی رسائل میں موجود ہے۔
ہماری یہ دعوے کو تصدیق کرتے ہوئے یہ اخوان المسلمون کی کتاب میں آیاہے، انقلاب کی کئی سال پہلے، اس نے کہا: جس طرح یہ۸۲۹۱ میں اخوان المسلمون کے نام میں نہیں جانتا تھا، اسی وقت اس نے ایسے تعریف کی ہے جس میں یہ تصوف کے ذریعے ہوا ہے“۔ اگرچہ تصوف میں حسن البنا کی طریقت اور رسمی نظریے یہ تھے کہ غزلۃ کو چھوڑ کر معشراتی اور قومی اصلاحات میں شراکت کر تعلیم اور تربیہ سے قوم کی جزو رہنا ہے۔
درحقیقت اس امۃ کی ہر ترقی اوراونچائی میں صوفیوں کی کردار نظر انداز کر سمجھنا مشکل کی بات ہے۔ یہ بات زور دے کر کہی جاسکتی ہے کہ حسن البنا نے اس بڑی اسلامی تحریک و تنظیم، تصوف کی روح پر قائم کر دیا ہے، لہذا اسی لئے اخوان المسلمون نے تصوف اور عسکریت سے اکٹھا ہوا۔
اس کی جوانی میں ہی وہ شاذلی طریقہ سے وابستہ تھا، اس وجہ سے وہ اخوان المسلمین کے تعلیمی اور تہذیبی فیصلوں میں صوفی اجزاء ایک اہم کردار بن گیا جو اس پر ان کے پیروکاروں عمل کرتا ہے۔. انہوں نے اس گروہ کے ثقافتی نصاب اور فیصلوں میں تصوف کی کتابیں شامل کی جیسے ''شرح حکم ابن عطاء اللہ السکندری' 'حارث المحاسبی کے'' رسالت المسترشدین''،قسطلانی امام کے'' المواھب اللدنّیۃ ' نبھانی امام کا ''الانوار المحمدیہ'' اور الرسالۃ القشعری“امام ابوحمید الغزالی کی ''احیاء علوم الدین'' ابن القدامہ المقدیسی'' کا ''منہاج القاصدین کا خلاصہ''، جس میں اس بات پر توجہ دی جارہی ہے کہ بڑی تنظیموں کی صداقت کے ساتھ کیا کرنا ہے،اور انھوں نے رسول اکرم ﷺ کے مولد شریف کو اجتماعی طور پر منانے کی خوائش رکھا تھا۔
تنظیمی طور پر،حسن البنا نے تصوف سے متعلق ایک زندگی اپنے پیوروں کے لئے پیش کیا تھا۔ اگرچہ پھر بعد میں مصری میدان میں سیاسی موجودگی کی ضروریات اور دیگر واقعات کی وجہ سے“ اخوان“ میں صوفی طول و عرض کے زوال کا موقعہ پیش کیا، اس کے بعد اخوان المسلمین کے نظام میں ایک گہری تبدیلی واقع ہوئی ہے، لہذ صوفی فریم ورک کو سلفی فریم ورک سے تبدیل کر دیا۔۔
ایسا ہوتو بھی انھوں دوسرے تمام فرقوں سے زیادہ سمجھے جاتے ہیں، آپ کہیں گے کہ اس طرح کا فرقہ ساٹھ ملین تک جا پہنچا ہے! ہم تیجانی طریقہ ہیں... اور نائیجیریا میں قادریہ ساٹھ ملین سے زیادہ ہیں!!! ٹھیک ہے، ساٹھ ملین، لیکن ان کی کردار کہاں ہے؟!! کردار غائب یا کمزور ہے اور اس پر اثر نہیں پڑتا، یا یہ کہ تمام تر کوششیں بانجھ تنازعات پر جاتی ہیں، اور دشمن ان کو اور نقصان پہنچانے کے لئے پر غور کررہے ہیں۔!
بعض کی دعوہ یہ ہے کہ ایک صوفی کو دنیا کے بارے میں یا اپنے لوگوں کے بارے میں اور اپنے مذہب اور خود کی حفاظت کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئے! اور اسے لوگوں کو ایسے ہی چھوڑنا چاہئے... وہ انہیں تنہا چھوڑ دیتا ہے! لیکن آپ اللہ تعالی کی یہ باتوں غور کرو۔
آل عمران: 200:{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}
(اے اہل ایمان کفار کے مقابلے میں ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور مورچوں پر جمے رہو۔اور اللہ سے ڈرو۔تاکہ مراد حاصل کرو) ال عمران۰۰۲
(وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآَتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ)
(اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ جیسا جہاد کرنے کا حق ہے۔اس نے تمکو منتخب کیاہے اور تم پر دین کی کسی بات میں تیگی نہیں کی۔اور تمہارے لئے تمہارے باپ ابراھیم کا دین پسند کیا اسی اللہ نے پہلے یعنی پہلی کتابوں میں تمہارا نام رکھا ہے تو جہاد کرو تاکہ پیغمبر تمھارے بارے میں گواہ ہوں۔اور تم لوگوں کے مقابلے میں گواہ ہو ۔ مسلمانو نماز قائم کرو زکاۃ دو اور اللہ کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو۔ وہی تمہارا مدد کار اور دوست ہے اوروہ کیا خوب مدد کارہے۔)حج۷۸
:]. [محمد:7:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ}
(اے اہل ایمان اکر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ بھی تمہارے مدد کرے گااور تم کو ثابت قدم رکھے گا“)محمد ۷
(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ. الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ(
حن مسلمانوں سے خوا مخواہ لڑائی کی جاتی ہے انکو اجازت ہے کہ وہ بھی لڑیں کونکہ ان پر ظلم ہورہا ہے۔اور اللہ انکی مدد کرے گا وہ یقینا انکی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے انہوں نے کچھ قصور نھیں کیا ہاں نہ کہتے ہیں کہ ہمارے پروردگار اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی مسجد جن میں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے گرائی جا چکی ہوتیں۔ اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے اللہ اسکی ضرور مدد کرتا ہے۔بیشک اللہ تو انا ہے غالب ہے۔
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنْتُمْ تَسْمَعُونَ. وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ
(اے اہل ایمان والو اللہ اور اسکے رسول کے حکم پر چلو اور اس سے روگردانی نہ کرو جبکہ تم سنتے بھی ہو۔اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کہتے ہیں ہم نے سن لیا مگر حقیقت میں نہیں سنتے۔)انفال ۲۰‘۲۱
:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ * وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب}لأنفال:24-25.
(مومنو! اللہ اور اسکے رسول کا حکم قبول کروجبکہ رسول تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی جاوداں بخشتا ہے اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اسکے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور یہ بھی کہ تم سب اسکے روبرو جمع کئے جاؤگے۔ اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گناہگار ہیں اور جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔) انفال
(وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآَخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ * وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ) الأنفال:60- 61].
(اور جہاں تک ہو سکے فوج کی جمعیت کے زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے انکے مقابلے کے لئے مستعد رہو کہ اس سے اللہ کے دشمنون اور تمہارے دشمنوں اور انکے سوا اور لوگوں پر جنکو تم نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی۔اور تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا ذرانقصان نہ کیا جائے گا۔اور اگر نہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا ہے جانا ہے۔)انفال سورت
یہ آیات ہر ایک مسلماں کو جھادکی حکم دیتی ہے ان میں سے مسلمانوں میں کوئی بھی استثناء نہیں ہے گویا وہ صوفی ہو یا نہ ہو۔مگر یہ ایک غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوئی ایک نا قابل دعوہ ہے
تم کو ایک ہی متحد ہوتے ہوے اسلامی جگہ کو پانا نا ممکن ہو چکا ہے و بالحال اللہ اس حال سے ہم کو ڈرایا ہے جیسے انفال سورت میں فرماتا ہیں: {وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ} [الأنفال:46]
(اور اللہ اور اسکے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ ایسا کرو گے تو تم بزدل ہو جاؤگے اور تمہارے ہوا کھڑ جاہے گی اور صبر سے کام لوکہ اللہ صبر کرنے والوں کا مددکار ہے۔)
ہم جدھر بھی ہو اللہ تعالی نے ہم کو نیکیوں اور بلائی کی حکم دینے کو اوربرائیوں سے روکنے اور منع کرنے کی حکم دیا ہے۔ اللہ تعالی نے آل عمران میٗ فرماتے ہیں
:{وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ * وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ} آل عمران:104-105
(اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہوگئے اور صاف احکام آنے کے بعد ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے یہ وہ لوگ ہیں جنکو قیامت کے دن بڑا عذاب ہوگا)
:{كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَوْ آَمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ}[آل عمران:110].
(مومنو! تم بہتریں امت ہو جسے لوگوں کی ہدایت کیلئے میدان میں لایا گیا ہے کہ تم نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہت اچھا ہوتا۔ ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں لیکن تھوڑے اور اکثر نا فرمان ہیں۔) آل عمران
اللہ کے تقوی اور پرہیزکاری کے ساتھ ساتھ اسلام میں متحد ہوکر ثابت کرنے کو اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ ال عمران میٗ فرماتا ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ * وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آَيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
(مومنو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔اور سب مل کر اللہ کی ہدایت کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور فرقے فرقے نہ ہو جانا۔اور اپنے اللہ کی اس مہریانی کو یاد رکھنا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس ہے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پھبچ چکے تھے تو اس نے تم کو اس سے بچھالیا۔ اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم راہ راست پر وہو۔)
انفال سورت میں فرماتا ہیں
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ*وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ) }[الأنفال:45- 46
(مومنو! جب کفار کی کسی جماعت سے تمہارے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت بہت یاد کرو تاکہ مراد حاصل کرو)
:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ * وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ}[الأنفال:15- 16].
اے اہل ایمان جب میدان جنگ میں کفار سے تمہارے مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا۔ اور جو شخص کے روزاس صورت کے سواکہ لڑائی کے لئے کنارے کنارے چلے یعنی حکمت عملی سے دشمن کو مار یا اپنی فوج میں جا ملنا چاہے ان سے پیٹھ پھیرے گا تو سمجھو کہ وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوگیا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بھت ہی بری جگہ ہے۔)
اللہ جس سے ڈراے تے وہ واقع ہوا۔تنازعات پیدا ہوے اور ہماری ہَوا بھی گیا ہَوا۔اسے یہ مراد آج جو واقع ہوتا ہے و ہی تھے ہماری قوت اسلامی حکمرانی,اسلامی ممالک اور سب کچھ چلا کیا۔
لہذا، اسلام کی حمایت کیلئے ہم سب زیادہ توجہ دینی چاہئے اورہر حالات میں مسلمانوں کی حمایت، اور مسلمانوں کو متحد کرنے کی جدوجہد کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے۔ صوفی اور دوسروں میں اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کسی مومن کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھے اور کہے: نہیں۔ میں کٹے ہوئے سمندر کے بیچ میں کچھ نہیں کرسکتا! نہیں نہیں.
توآپ، ایک مومن، کسی اچھے لفظ سے بھی، کسی مناسب لوگوں میں مناسب وقت پر صحیح جگہ پر تبلیغ کر اثر ڈالنے سکتے ہیں، اور اس طرح صحیح معرفت اور صحیح چیز کا انتخا ب اللہ کی طرف سے توفیق سے ہوتا ہے،تو مؤمنوں کی دلوں میں ایمان نئے سرے سے آئے گا، اور اسلام میں نئی تجدید ہوگی۔ تاکہ وہ ان لوگوں کی حقیقت کا ادراک کر سکیں گے۔اورفرق کرنا سکیں گے کہ جو ان کے لئے بھلائی چاہتے ہیں، اور جو ان کو نہیں چاہتے ہیں ا
یہارے عرب کے بعد اُمت اسلامی کا بڑھتا ہوا خطرہ
در حقیقت ہم خطرے میں ہیں! اسلامی قوم خطرے میں ہے۔ ان تمام ممالک کو دیکھیں جو عرب بہار کی وجہ سے تبدیل ہوچکے ہیں، لیبیا، اور مصراور دیگر ممالک, اگر مقصد یہ توکہ اس ملک کی تعمیر، اور اس میں حکمران اقتدار کو بہتر انداز میں تبدیل کرنا ہو تو! پھر یہ لڑائی کیوں ہو رہی ہے؟ یہ دشمنی کیوں؟ مسلمان کا خون ہمیشہ بلا وجہ کیوں بہایا جاتا ہے؟!
اس سب سے آپ کو کبھی یہ احساس ہوجاتا ہے کہ کسی ایک اورمقصدکو منصوبہ بندی کر رہے ہیں، اور اس مقصد سے جو ان تنازعات کا حامی ہے اس کو اسے گریز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ ان تنازعات میں ملوث ہیں تو آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ایک مخلصانہ مسلمان ہیں تو... آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں اوراللہ آپ کی حمایت میں فتحبازی کے ساتھ مدد کرے گا۔
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ، ہمیں کامیابی اور توفیق عطا فرمائے، اور میں آپ کا استقبال کرتا ہوں، اور، افہام و تفہیم کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے، اور تفہیم کے ذرائع آج بہت سارے ہو گئے ہیں، مگر آج تمام لوگ کی ا تفاق قرآن پر بھی نھیں ہے۔ آج، اگر آپ قرآن کو پڑھتے ہیں... تو سب اس کے معنی پر یا تفسیر پر یا مفہوم پر مختلف رائے سے آتا ہے۔ مگر اللہ کی فضل سے حقیقت سمجنے کو دل کھول کر رکھو۔ اللہ ہماری اور آپ کی مدد فرمائے۔پاتے ہیں۔
اللہ فرماتے ہے سورۃ الرعد؎ میں فرماتے ہیں (انکو جو ایمان لاتے اور جنکے دل اللہ کی یاد سے آرام پاتے ہیں انکو اور سن رکھو کہ اللہ کی یاد سے ہی دل آرام پاتے ہیں)
طریقۃ التجانیۃ؛ قادریہ اور تمام طریقتوں کے مابین تعلق اور ہندوستان میں تیجانیین کے حالات
اِمارات اور سلطان عمان دونوں میں تجانی لوگوں کے حالات کے بارے جان پوچھ کے بعد، ڈاکٹر مختار نے بیان کیا کہ ہندوستان کے کیرالا سے شیخ رحمت اللہ نے، مولانا شیخ موسیٰ عبد اللہ سے ملنے آئے ہے، اورہندستان کے برے میں عیان و بیان کیا کہ وہ بہت ساری پریشانیوں کا شکار ہے، کیوں کہ ہندوستان میں ان کے لئے بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور بدقسمتی سے تصوف سے تعلق رکھنے کچھ لوگ یہ سمجتا ہے کہ عبد القادر الجیلانی سے توسل کرنا واجب ہے ۔
مولانا ؒنے جواب دیا: ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اس کو کامیابی عطا کرے، اور انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ تجانیہ یا اولیاء کے دوسرے طریقۃ نے شیخ عبد القادر الجلانی کے خلاف نہیں ہیں، اور تجانی عوام نے ہمارے ولی عہد شیخ اکبر الفردمحي الدین عبد القادر الجیلانی کو احترام کرتے ہیں۔اور یہ کہ ہمارے شیخ التجانی رحم اللہ علیہ اپنے پیروکاروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ تمام سنتوں کی پرستش کریں اور شیخوں کا احترام کریں، ہمارے شیخ عبد القادر الجیلانی ؒکے علاوہ کون ہوگے اس میں،۔
جب شیخ الإسلام، مولانا شیخ ابراہیم نیاس الکولخی رحمہ اللہ، سرکاری دورے پر عراق تشریف لائے تو، میں سمجھتا ہوں کہ یہ عبد السلام عارف کے دور میں تھا، وہ شیخ عبدالقادر الجلانیؒ کو زیارہ کرنے ارادۃ کیا، تو کچھ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔ جب میں ایک بار مدینہ میں اس کے ساتھ موجود تھا، توکچھ ہمارے کچھ لوگ ایک سوال پوچھا، جو یہ ہے کہ: ایک تجانی کو غیر تجانی شیخوں کا زیارہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا: (آپ جاکر انہیں شیخ تجانی کا سلام بتائیں، اور ان کے لئے دعا کریں جیسا کہ سنت نے حکم دیا ہے) یہ بات تمام مسلمانوں کے نبی کی زیارت کے سیاق و سباق میں ظاہر ہے۔
لہذا جب کوئی مسلمان خدا کے رسولﷺ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، تو کامل حضور دل سے آواز کو نیچے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ (السلام(
میں لڑی، اور صبر کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کی یہاں تک کہ وہ آپ کے پاس یقین کے ساتھ آجائے، خدا کی دعائیں اور سلامتی آپ پر، اور آپ کے اہل خانہ اور دوستوں پر، بہترین اور انتہائی پوری دعا، اور بہترین اور بابرکت دعائیں ہوں۔
پھر وہ شفاعت کا مطالبہ کرتا ہے، اپنے رب سے معافی مانگتا ہے، اور اس سے اپنی خصوصی، عمومی، دنیاوی ضروریات کے لئے پوچھتا ہے۔۔ مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ قبروں کی زیارت واجب ہے۔میں نے ہمارے زیارۃ سے یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے ایمان کو تازہ کرتا ہے, یقین پختہ ہوتا ہے۔
لیکن اولیاء کرام کی زیارت اور ان سے بھیک مانگنے کا فریضہ سے کسی نے نہیں کہا۔بلکہ وہ ایک سنۃ کام ہے لہذا، شیخ تجانی کے بقول، تمام اولیاء کو احترام کی جانا ہے۔اور جیسے اگر ایک آدمی ساتھ کھانے کی دعوت دی، مگر تم اجابہ دینے کے با وجود تم اسے کہا کہ میں نے اپنے والد کے گھر میں کھانا کھایا، لہذا میں نے جو کھانا آپ پیش کیا اس کو میں نہیں کھا سکتا، تو اس میں ناراض ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔تو بس وہ اجابۃ الدعوۃ ادھر کی حق پوری کر دیا ہے، س۔اسی طرح اولیاء کے احترام کرنے کی باوجود یہ ان سے توصل یا زیارہ واجب نھین کہ سکتا۔
اور جب ہم آقا ابوبکرؓؓؓ، عمرؓؓ، عثمانؓؓؓ، یا علیؓؓ کے پاس جاتے ہیں تو، ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے طرح عمل کرتے ہیں،ہم ان کو سلام کہتا ہیں اور ان سے التجااور توصل کرتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ انکو خدا کے توفیق سے خدا کے رسولﷺ کے ساتھ حاضر ہونے کی مدد ملی۔، اس سے سرقہ ہوا ہے۔ اور اگر تم جو کچھ بھی کرتے ہوتو بھی، آپ کا کام کبھی بھی ان جیسا نہیں ہوتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟! ہاں اگر تم نے پہاڑ احد کی وزن تک سونا خرچ کیا ہوتا توبھی ان سے آدھا یا اسے اقل ہوتانھیں..جیسے ہمارے شیخ التجانی رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں: ہم تیجانی کے اعمال صحابہ کے ساتھ چیونٹیوں کی طرح ہیں۔
خاتمہ
اسلامی قوم کی حیثیت میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت
آپ کو عالم اسلام کی موجودہ صورتحال کے بارے میں سوچنا اور اس پر دھیان دینا ضرور ہے۔ کیوں کہ دشمناں اسلام, عالم اسلام میں ایک عظیم فتنہ اور برائی چاہتے ہیں۔یہ دیکھیں نائیجیریا میں ہونے والی تباہی اور بربادی سے کیا ہو رہا ہے!!!
انہوں نے نائیجیریا میں مسلمانوں کی صورتحال اور اس کے لوگوں میں اسلام کی طاقت کودیکھا، لہذا انہوں نے ''برنو'' کو انکے کارگاہ ہو کرکا انتخاب کیا۔یہ اسلام کی ایک قدیم ریاست ہے، اور یہ ایک وسیع وعریض اسلامی سلطنت تھی۔ عجیب و غریب امور کیلئے متعدد کوششیں کی،مگر ہم یہ نہ جانتا تھا جب تک کہ ہمیں آخر تک اس نیت کا ادراک نہ پایا۔
بڑے کنٹینر میں ہتیاورں نائجیریا آتا ہے اور یہ سب کیوں ہے؟ اس سب کا اسلام سے لڑنے کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہے۔ ان واقعات کا وقوع پذیر ہواورکہ، ناانصافی اور ظلم و ستم کے شکاربن گیے، اور اب اللہ نے ان کے منصوبے کا انکشاف کیا ہے۔
یہ سچ ہے کہ اس تنازعے کے آغاز میں انہوں نے ہم سے دشمنی اظہار نہ کرتے تھے اور ہم پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ جیسے ہم اللہ کی دعویے داروں کی حیثیت سے انھوں نے معاملہ کیا اور ہم کو احترام بھی کی،ان کے پاس کوئی مکر وحیلہ بھی نھیں ہے ایسے انھوں نے پیس کی لیکن معاملہ اب ان اعتدال پسندوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے، لہذا اب بہت سارے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں تو اسی لئے ہم تیاری کرنی ہوگی۔
مسلح ڈکیتی کے اماموں کو راستا روکنے کو(بوکو حرام) نامی ایک تنظیم ہے، اور وہ سیاستدان جو انتخابات میں ناکام ہوئے اور ایک دوسرے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، ان کی (بوکو حرام) نامی تنظیم ہے، اور پھر اصلی نام کے ساتھ بہت سارے مسائل ہیں۔
''بابکو حرام ہے'' کے معنی
ڈاکٹر مختار؛ حرام“، ہم اس کے معنی سمجھ گئے ہے، لیکن(بوکو) کے لفظ کا کیا مطلب ہے؟
مولانا: (بوکو) لفظ ''بَوکَوي'' کا ایک مخفف ہے، جس کا مطلب ہے کہ پہلی سے ساتویں سال تک، پرائمری، ایلیمنٹری تعلیم۔(بوکو) کا مطلب نہ صرف اعلی تعلیم منع کرنا نہیں ہے، بلکہ یہاں تک کہ بنیادی تعلیم بھی ممنوع ہے۔یہ اس کا معنی ہے۔اسے مطلب یہ ہوتاہے کہ مغربی تعلیم سب نا جائز ہے۔
یہ توحید اور جہاد کا مطالبہ کرنے والی ایک تحریک ہے، اس کے تنوع کے ساتھ ساتھ، یہ ملیشیا میں انصارالدین، ہے اور لیبیا میں انصار الشریعہ ہے، اگر یہ جوہر سے مختلف ہوتو بھی تمام سطح پر ایک ہی تانے بانے ہیں۔اللہ حق کا فیصلہ کرتا ہے۔لا معقب کحکمہ وھو الشدید المحال ۔ اللہ ہمیں ہر شر سے بچھالیں۔
الحمد للہ۔