مضامین

افریقہ میں اسلام

admin August 23, 2020 عام

اسلام کی پیدائش میں ہی افریقہ اسلام کوپہچان کر دیا تھا، اور اسلام افریقی ثقافتی شناخت کا ایک اہم کردار ہیں، پھر بھی یہ بات بہت سارے لوگوں کے ذہن میں ثابت ہوکئی ہیں کہ اسلام افریقہ میں نیا انے والا ہے، اور اسی وجہ سے اسلام کو مستحق منصب نہ دیے رہی ہے۔

پروگرام پیش کرنے والا:  مہر عبد اللہ

 مہمان: جمہوریہ نائیجیریا کے مفتی شیخ ابراہیم صالح الحسینی ہیں

 تاریخ:  07 /08/2001

افریقہ میں اسلام کی آمد اور پھیلاؤ

افریقہ کی تاریخ اسلام کی عدم موجودگی کی وجوہات

افریقہ میں مسلمانوں کی اختلاف اور تفرقہ کے مسائل

مغربی استعمار اور مشنری سازشیں

کفارہ کے مسئلہ اور افریقی مسلمانوں کے مصائب

اسلام کی پھیلاؤ میں افریقی علما کا کردار

ماہر عبد اللہ: پیارے ناظرین، خدا کی طرف سے آپ کو سلامتی ہو، اور (الشریعہ و الحیات) کے ایک نئے ایپیسوڈ کا خیرمقدم اور استقبال۔

اسلام, نائیجیریا میں دعوت المحمدیہ سے ہی شروع ہوا ہے۔ ساری سیرت کی کتابیں ،ابسینیا کی حاکم نجاشی  کے بارے میں آئے احادیث سے بھری ہوئی ہیں، جو رسول اکرم نے مسلمانوں کے لئے ایک محفوظ مقام ہوکر انتخاب کیا تھا۔ایسی ایک حقیقت کے باوجود، یہ بات بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ثابت ہوتی رہتی ہیں کہ افریقی براعظم میں اسلام ایک اقلیت مذہب یا ایک ہنگامی مذہب ہے۔

اشتہاری

(افریقہ میں اسلام)کے بارے میں بات کرنے کے لئے، آج رات میرے مہمان شیخ ابراہیم صالح الحسینی (جمہوریہ نائجریا کے مفتی اور وہاں اسلامی کونسل کے صدر)موجود ہیں۔

شیخ ابراہیم، (الجزیرہ) میں (شرعی و الحیات) میں خوش آمدید۔

ابراہیم صالح: آپ کا استقبال ہے۔

افریقہ میں اسلام کی آمد

ماہر عبد اللہ: کیوں یہ بات اسے سمجھ جاتا ہے کہ افریقی لوگ اسلام میں قریب العہد یا نیا ہیں، حالانکہ آپ افریقی لوگ سب سے پہلے جب اسلام کمزور حالت میں تھا تو اس حفاظت کیلئے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہیں؟

ابراہیم صالح الحسینی: بسم اللہ الرحمان الرحیم۔الحمدللہ رب العالمیں، والصلاۃ و السلام علی سید المرسلین۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ افریقہ اسلام کا خیرمقدم کرنے والا پہلا براعظم ہے، اور مھاجریں کو پھلے میں ہی قبول کر دیا۔، کیونکہ رسول کی صحابہ کرام نے نبوت کی پانچویں سال میں افریقہ میں سے ابیسینیہ تک ھحرۃ کرنے شروع کیا تھا، الگ زبان میں کہے تو دعوت کا اعلان سے دو سال یا ڈیڑھ سال بعد۔ خدا کے رسول نے اللہ تعالی کی حکم کے مطابق، اپنے صحابہ کو کسی ایسے مقام پر ہجرت کرنے کا ارشاد دیا، جس میں وہ اپنے مذہب میں محفوظ رہیں اور اپنے جسم اور اپنے مال کی حفاظت کر سکتھا ہیں،  تو رسول نے اللہ کے الھام سے ہجرت کیلئے حبشہ کو اختیار کیا ''کیوں کہ ادھر ایک بادشاہ ہے جس کے پاس کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا ہے۔تو متعدد صحابہ کرام اس ملک سے ہجرت کر گئے، پھر انہوں نے اس بے صحیح خبر کے مطابق کہ اہل مکہ نے اسلام قبول کرلیا ہے تووہ صحابہ واپس آگئے۔مگر تب انہیں احساس ہوا کہ یہ خبر صحیح نہیں ہے، لہذا وہ ابسینیا  واپس آئے۔، اور اس بار ان کے ساتھ جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھ متعدد دیگرصحابہ بھی موجود تھے۔ اس بار صحابہ اسی یا زیادہ تعداد تک پہنچ گئی تھی، اور یہ صحابہ سولہ سال کے لگ بھگ طویل عرصے تک حبشیہ میں رہے۔ا س وقت میں افریقی باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کرلیا، لیکن بدقسمتی سے، انکے مخصوص ہو کرناموں درج نہیں کیے گئے ہیں۔

ماہر عبد اللہ (مداخلت): کیا اسلام کی آمد کا یہی بس واحد طریقہ تھا، یا اسلام دوسرے ذرائع سے پھیل گیا ہے؟ اگر وہ لوٹ گئے تو  انہوں نے کتنی وراثتیں چھوڑدی؟

ابراہیم صالح الحسینی: یقین ہے کہ انہوں نے مذہب اسلام کو پیچھے چھوڑ دیا اور ایک مسلم ہوئے جماعت کو چھوڑ دیا، اور سخت ترین روایت کی مطابق نجاشی نے اسلام قبول کیا، اور اس کا ثبوت صحیح مسلم میں آیا ہے کہ جب نجاشی نے انتقال ہوگیا تھاتو خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام ہو کر ان پر نمازپڑا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ مسلمان ہوکر انتقال ہوگئی ہے، اور یہ ناقابل فہم ہے کہ صحابہ کرام نے اس طویل عرصے (نبوت کے پانچوں سال سے ہجری ساتھویں سال تک‘ سولہ سال)ابسینیہ میں رہنااور اس کے ساتھ ہی ساتھ ابیسینیہ میں کوئی پر اثر انداز نہیں کرنا۔ اس میں اور ایک بات ہے کہ صحابہ کو نجاشی بھی اس میں مدد کیا ہے کیونکہ وہ ایسی ایک اعتقاد والے تھے جو اسلام سے مختلف نہیں ہے۔

مہر عبد اللہ:  عرب ایشین مؤرخیں یعنی ایشین تاریخ نے افریقی تاریخ کے ساتھ ناانصافی کیا ہے کیا؟کہ اس سے ہمیں ابیسیانیا کو کوئی سروکار نہیں ہوتا سوائے ان ادھر آیا اور فتح سے لوٹ گیا۔۔

صالح ابراہیم:  نہیں۔

مہر عبد اللہ:  بعد، اس کی کوئی تفصیل نہیں ہے، کہ انہوں نے سولہ سالوں میں ان کے ساتھ کیا ہوا تھا، اور اسلام پورے برصغیر میں کس طرح دور پھیل گیا تھا..؟افریقی تاریخ میں اس کو کوئی بیان ہے؟

ابراہیم صالح الحسینی:  سچ یہ ہے کہ جو کوئی بھی افریقہ کی تاریخ  اور اس میں اسلام کا پھیلاؤ کو تلاش کرتا ہے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ... حبشہ سے ہوئی ہجرت کو افریقہ میں ہوے فتوحات میں بہت بڑا اثر ہے، کیونکہ وسطی افریقہ باشندوں سے اکثر  ابیسینیہ کے خطے سے  یا سوڈان کی (علوا)، یا (اولڈ  ڈونگولا)  نوبیا کے خطے سے یا مصر  کی تارکیں وطن ہے، لہذا یہ سب تارکین وطن سے یہ ممکن نہیں کرتے ہیں کہ وہ حال ہی میں ان ممالک میں متأخر ہوکر پہنچے ہیں، لیکن ان میں سے کچھ صحابہ سے متاثر تھے.. اور مسلم ہو چکے تھے۔

فاصلہ اشتہاری

ماہر عبد اللہ:  بس یاد دلانے کیلئے‘۔تم لوگوں کو انترنیٹ کے ذریعے اس میں شامل کرنا سکتا ہے۔

افریقہ میں اسلام کو‘شمال میں عرب اسلام“نام سے معروف ہے۔ہم مصر کی فتح کے بارے میں جانتے ہیں، اور ہمیں عقبہ ابن نافی کے بارے میں بھی معلوم ہے، اورہم یہ بھی سنتا ہے کہ وہ افریقہ جانا اور فتح کرنے چاہتے تھے۔مگر ہم نے سہارا کے نیچھی سے فتح کے بارے میں نہیں سنا ہے۔

ابراہیم صالح الحسینی:  یہ حقیقت ہے کہ عقبہ بن نافع نے افریقہ میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی، اوروہ مصر اور لبیامیں داخل ہونے سے افریقہ میں داخل ہوا تھا، اور اس نے (فزان)کی طریقہ سے (کوور) کے علاقے میں پہنچا تھا۔(کوار) موجودہ (کینن بورنو)کے شمال میں واقع نمک کی ایک مشہور کان ہے۔

مہر عبد اللہ:  نائیجیریا  میں؟۔

ابراہیم صالح الحسینی:  یہ نوآبادیاتی سامراجی تقسیم کے بعد  اب جمہوریہ چاڈ میں واقع ہے، ماضی میں، یہ سب (بورنو)، (کینن بورنو) تھا۔

اور اس علاقے کے جنوب کی طرف فزان اور کوارکے راستے سے عقبہ بن نافع پار کیا تھا، -اور وہ چھ مہینے وہاں مقیم رہا، اور وہ جھیل چاڈ تک اس صحرا کے ذریعے پھوٹ پڑنے کے ارادہ کیا تھا، لیکن اس وقت پانی کی تکلیف اور دربدر سڑکوں کی وجہ سے، اس نے ساتھیوں کے ساتھ چھ مہینوں کے بعد واپس لوٹا۔ اس تاریخ کے بعد سے، افریقہ میں لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا تھا.. وہ عقبہ بن نافع کے ہاتھوں اسلام میں داخل ہوئے، اور ہجری سال چپھن سے ہی یہ براعظم میں اسلام کے تعارف کا آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت، اسلام نے اس خطے میں گھسنا شروع کیا تھا جو آج کل (کنن) کے نام سے جانا جاتا ہے، جو جھیل مشرق چاڈ میں واقع ہے۔ جھیل کے مغرب (بورنو) علاقہ ہے، جو موجودہ  دورمیں نائیجیریا کا حصہ ہے۔ اسلام بہت سارے عوامل کے ساتھ ان خطوں میں داخل ہواہے، اور اسلام کے مبلغین نے بہت سارے راستوں پر عمل کیا ہے، لیکن یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

مہر عبد اللہ (مداخلت): لیکن.. لیکن فتوحات، میرا مطلب ہے کہ وہاں فتوحات مشہور نہیں ہیں۔کیا انھوں نے بڑا کردار ادا کیا ہے کیا؟

 

ابراہیم صالح الحسینی:  نہیں.. اسلام افریقہ میں خصوصا ً، صحارا افریقہ اور وسطی افریقہ میں  بغیر کسی فتح سے پھیل گیا ہے - مگر کچھ اہل النسک والے سیاحوں ان خطوں میں اسلام کو لایا ہیں،، جو صرف اپنے ساتھ وضوء کی پانی کیلئے ایک برتن، اور قرآن مجید تھے،انہوں لوگوں کے ساتھ اچھے برتاؤاور معاملہ، اور اسلام کے نیک کردار کے تحفظ سے لوگوں کو متاثر کیا، لہذا ان کی وجہ سے اسلام پھیلانا شروع ہوا، اور پھر ان علاقوں کی منڈیوں تک پہنچنے والے کچھ عرب تاجروں بھی انکے ساتھ دی۔

مہر عبد اللہ:  جسے تم نے(اہل النسک) کے نام سے موسوم کیا... ان سوداگروں کو عام طور پر کہا جاتا ہے... عام طور پر تاریخ کی کتابوں میں صوفی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ابراہیم صالح الحسینی: ہاں۔

مہر عبد اللہ: اور افریقہ سے باہر کے مبصرین یہ نوٹ کرتا ہے کہ یہ ایک صوفیانہ اسلام ہے۔ در حقیقت اسلام کی پھیلاؤ میں انکے کردار کیا تھا؟

ابراہیم صالح الحسینی:  واقعتا ایسا ہی ہے.. وہ پہلے داخل ہوئے۔وہ عبادت گزار، زاہدلوگوں کے طور پر داخل ہوئے، اس کے بعدیہ صوفی راستے ہوا اور افریقہ میں  انھوں نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔خصوصاً آخری عصر میں جو نوآبادیاتی جنگ کے عرصہ میں، اس میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن سب سے پہلے انہون یہ کیا  ہے جو عبادت گزار اور زاہد لوگ جو صرف قرآنی آیات کی پیروی کرتے ہوئے، سنجیدگی کے نظریے سے تعلق رکھتے ہیں، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ افریقہ میں زیادہ تر لوگ قرآن کی تلاوت کرنے پر شوق والی لوگ ہے، حالانکہ کہ قرآن مجیدنے آخرۃ اور زہد کے طرف بلاتاہے جو انسان کو ہر جگہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر جب آپ قرآن کے یہ الفاظ پڑھتے ہیں۔

 (اعلموا أنما الحياة الدنيا لعب ولهو وزينة وتفاخر بينكم وتكاثر في الأموال والأولاد كمثل غيث أعجب الكفار نباته ثم يهيج فتراه مصفراً ثم يكون حطاما)

) -مثلا وفي الآخرة عذاب شديد ومغفرة من الله ورضوان وما الحياة الدنيا إلا متاع الغرور                                                                                                                                                                                  

      ۔ ایسی آیتیں اور خداوند متعال کا قول، (     واضرب لهم مثل الحياة الدنيا كماء أنزلناه من السماء فاختلط به نبات الأرض فأصبح هشيماً تذروه الرياح )( وإنما مثل الحياة الدنيا كماء أنزلناه من السماء فاختلط به نبات الأرض مما يأكل الناس والأنعام)۔یہ آیات، جو قرآن مجید میں مذکور ہیں، سادگی زنگی کا مطالبہ کرتی ہیں، وہ عیش و عشرت سے دور رہنے  کا مطالبہ کرتے ہیں، اور وہ بھی اس دنیا میں زہد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ افریقہ کے ابتدائی میں مسلمان لوگ، اس حقیقت کی وجہ سے ان کے اعمال، ان کی پیش گوئی، اور ان کے تمام طرز عمل میں قرآن کی ارشاد کے مطابق عمل کیا، اس سے ان کے دل و جان پر اثر پڑا، لہذا ان میں اکثر صوفی لوگ تھیں۔ یہ کیوں مثبت ہے؟ کیوں کہ اس تصوف نے بنیادی طور پر قرآن مجید کی اشاعت اور اسلامی فقہ کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ جہاد کی دعوت دی اور یہاں تک کہ افریقہ میں رونما ہونے والی نئی اصلاحی اور سب ترقی پسندتحریکیں انہی لوگوں کے ذریعہ قائم کی گئیں ہے،۔

اسی لئے میں نے آپ کو بتایا کہ ان کا تصوف ایک مثبت تصوف ہے، اور کاروبار یا معاشرے سے سبکدوش ہونے سے، یا انحصار یا انتشار کے معاملے میں، تصوف کے خلاف اٹھائے جاتے الزامات اس وقتموجود نہیں تھا، اور اسی وجہ سے افریقہ میں اسلام جنگ،تلوار اور لڑائی کے بغیر پھیل گیا۔

تاریخ افریقہ میں اسلام کی عدم موجودگی کی وجوہات

مہر عبد اللہ:  جناب، ہم، بحیثیت عرب، ہم عباسی ریاست، اموی ریاست، خلافت عثمانیہ، اور سلجوقوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ افریقہ ن بھی ایسے ممالک کا مشاہدہ کیا ہے، جواس کسی سے بھی چھوڑا یا کم اثرورسوخ نہیں تھے، لیکن انھیں مشہور نہیں ہے اور شاید ہی کسی نے ان کے بارے میں سنا تھابھی نہیں ہونگے!!۔اگر سنتے توبس ریاست الفلانیہ(بیکنان)، (بورنو) مالی سلطنت، قدیم گھانا(ghana)کی سلطنت کے بارے میں سنتاہے،تو آپ لوگ نے اپنی تاریخ کیوں نہیں لکھی؟ جب آپ عباسیوں اور امویوں کے بارے میں جانتے ہیں تو آپ اپنے ملکوں میں گزرے عباسیوں اور امویوں کے بارے میں جاننے کے لئے اپنی تاریخ کیوں نہ پیش کرتے ہیں؟

ابراہیم صالح الحسینی:   جیسا کہ میں نے کو بتایا ہے.کہ کونکہ افریقا سب سے پہلے ان کا مفاد اسلام پر قابو پانے اور اسلامی دستاویزات کو درست کرنے میں تھا۔ قرآن کی ہے افق میں انہوں پہنچھ چکے، قرائت میں نافعؓ یا قالون یا ابو عمر میں محدود تھے۔ عقیدۃ کا مسلک میں اشعری یامتوریدی کی دو اقسام کے پیروں تھے، اور ایسے بھی لوگ تھے جو خود اجتہاد  کر  ان میں سے اپنی پسند کا انتخاب کرتے ہیں اوراس میں کتابیں لکھتے ہیں۔ بہت سارے اہل علم نے اس زمین کے بارے میں بھی لکھا، یہاں تک کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مصنف کہتا ہے کہ مشہور اسلامی سلطنتیں چار ہیں۔، اور اس نے بغداد میں عباسی ریاست کا ذکر کیا۔ اور مصر میں یکے بعد دیگرے اسلامی سلطنتیں، سلطنت (کانین  بورنو) اور سلطنت مالی۔ یہ کتاب کا زبان میں ایسا ہے کہ: ''یہاں چار اسلامی دارالحکومتیں ہیں: ایک طرف بغداد، ایک طرف قاہرہ، اور دوسری طرف (کانن بورنو) خطہ اور (بصریح) یا.. یا (ٹمبکٹو)۔   اورآج(ٹمبکٹو) شہر میں ایک اسلامی ادارہ یا مدرسہ تھے،وہ اس جامعہ (سنکوریون)  نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ جامعہ بہت بڑی ہے اور خود(ٹمبکٹو)بھی ایک بڑے شہروں میں سے ایک ہے، یہاں تک کہ آل سعدی نے اپنی کتاب ''سوڈان کی تاریخ'' میں کہا: تیمبکٹوایک اسلامی دارالحکومت ہے جس میں صرف اللہ کیلئے سجدہ کیاہے“۔ اور یہ 400 سال تک جاری رہا،

اسی لئے میں یہ عیان و بیان کرتا ہوں کہ افریقہ کی تاریخ یا افریقہ میں اسلام کی تاریخ لکھی گئی ہے، مثال کے طور پر (الفتتاش) سوڈان کی تاریخ،اور  امام السعدی کی کتاب،... ادریس... اور اس کی فتوحات“، اور بہت ساری کتابیں تحریری یا تحقیقات کی گئی ہیں۔

مہر عبد اللہ: لیکن یونیورسٹیوں میں، اسکول  میں جب طالب علم تاریخی تعلیم حاصل کرتے ہیں..... مجھے ایسا عرب ملک نہیں آتا جو افریقہ کی اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہو..

ابراہیم صالح الحسینی: یہ افریقہ۔

مہر عبد اللہ:  اگر ہم تمام ممالک اور اسلامی خلافتوں کو ذکر کرتاتو ہم دمشق، بغداد ،کے بارے میں ذکر کر رہے ہیں۔

ابراہیم صالح الحسینی:  یہ سچ ہے اور یہ تو ایک تقصیر ہے، کیونکہ.. جیسے کہ افریقہ میں تاریخ اسلام اور مبلغ اسلام کی کاوشوں کی تعلیم دینے  میں تقصیر ہوئی تھی، اسی طرح کی غفلت رسول خدا کے ساتھیوں کی حبشہ کے زمانے دور میں صحابہ کرام اور ان کی سرگرمیوں پائی گئی ہے - اس، براعظم پر ان کے اثر و رسوخ جنہوں نے افریقہ میں تقریبا سولہ سال بسر کرتے تھے، تواس تاریخ لگھنے پر اتنی توجہ نہیں دی جارہی تھی۔ ان سب کے بارے میں نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس کی عیب افریقیوں سے منسوب نہیں ہے کیوں کہ افریقیوں نے اس جگہ میں بہت کچھ لکھا ہے۔ یہاں تک کہ بہت ساری کتابیں شیخ عثمان بن فوذیو نے لکھا ہے  یہ حلیاً مجاہدین کا ایک شخص بھی تھے، جنہوں نے افریقہ میں اسلام کی تحریکوں کی تجدید کی، اور وہ فولانی ریاست کا بانی بھی ہے۔ اس نے اور اس کے بھائی شیخ عبد اللہ بن فوڈیو اور اس کے بیٹے محمد بلیو نے سیکڑوں سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ ان میں سے: ''تفسیرضیاء التأویل'' چار جلدوں میں، جو پہلی بار احمد سردونا کے زمانے میں شائع کی گی ہے۔

ماہر عبد اللہ: وہ صدر تھے۔؟

ابراہیم صالح الحسینی: احمد بلیو سردونا (شمالی نائجیریا کے وزیر اعظم)۔ ان کتابوں خزانے ہیں  جس میں دفن شدہ ادب کا وجود ہے۔

ماہر عبد اللہ:  آپ نے ذکر کیا.. کہ مشرق میں خلافت کے خاتمے کے بعد تجدید  پسند اسلامی تحریکوں اسلام کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، اس میں سے ایک ''الصحوت الاسلامیہ'' کے نام سے جانا جاتا تھا، جو بالآخر  ایران اور، سوڈان میں شامل تھے، خواہ یہ لکھا ہی نہیں گیا تھا، لیکن یہ بلا شبہ افریقہ کے مسلمانوں کے ضمیروں میں یہ تاریخ موجود ہے، کیا اس کی عکاسی ہوئی ہیکیا؟... یا اس تاریخ کو زندہ کرنے کی کوششوں، کیا ؟وہ افریقہ میں تجدید تحریکوں میں جھلک رہے ہیں جیسا کہ عرب دنیا میں اس کی عکاسی ہوتی ہے۔؟

ابراہیم صالح الحسینی:  یہ حقیقت ہے کہ تقریبا   تمام اسلامی تجدید تحریکیں انیسویں صدی سے رانیسویں صدی کے وسط تک یہ پوراجنم لے گئیں.. او وقت میں متعدد علماء پیدا ہوئے، اور(ٹمبکٹو) جیسا کہ میں نے کہا..  مطلب چودھویں صدی میلادی میں ہے، کیونکہ ٹمبکٹو (610)ساتھ سو دس ہجری کے آخر میں تعمیر کیا گیا تھا، اور پھر یہ تقریبا) 1002 (یا  ایک ہزار (1000) تک تباہ نہیں ہوا تھا، اور باقی افریقی خطوں میں اسلامی تجدید تحریکیں قائم تھیں، اور یہ تو پورے براعظم میں پھیلے ہوئے ہیں، مثال کے طور پر شیخ عثمان بن فوڈیو، جیسا کہ بیان کی ہے، اورشیخ محمد احمد السوڈانی نے سوڈان میں ایک تجدید تحریک، اور شیخ عمر بن سعید الفتی نے مالی (Mali)کے علاقے میں تجدید تحریک شروع کی، اور متعدد دیگر علماء نے اپنی تحریکیں بنائیں، لیکن وہ  جہاں وہ رہتے ہیں بس ادھر کی معاشروں کو متاثر کیا۔ اس میں، افریقہ میں جدید تحریکیںہمیشہ اسلامی علم کی گہرائی، عربی زبان کو پھیلانے، اور اسلامی اداروں کو کھولنے پر مرکوز کرتی ہیں۔..

[اشتہار کا وقفہ]

مہر عبد اللہ: میرے خیال میں ان بھائیوں سے معافی مانگنا ضروری ہے جنھوں نے وقفے سے پہلے ہمیں فون کیا تھا، اور ہم اب ان کے فون لیں گے۔

میرے ساتھ سب سے پہلے مصر سے (صابری معروف) ہیں۔، براہ کرم۔

صابری معروف: السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

ماہر عبداللہ: تاخیر پر معذرت،!  بھائی صابری۔

صابری معروف: نہیں،... لابأس۔

مہر عبد اللہ:   براہ کرم۔

صابری معروف: بھائی ماہر، اور معزز مہمان شیخ ابراہیم کومیرا  سلام۔

برصغیر افریقہ دنیا کا ایک سب سے اسلامی براعظم ہے،اور  اس کا شمال، تمام عرب ممالک مسلمان ہے، خدا کا  شکر ہے۔

ابراہیم صالح الحسینی:  الحمد للہ۔

صابری معروف:  آپ کے مہربان سے۔ آپ کیلئے کچھ ممالک کے مسلماں کے بارے میں کچھ اعدادوشمار پیش کرتا ہوں، مثال کے طور پرمسلمانوں نائیجیریا میں چھہتر (76) فصید مسلمان، سینیگال میں بانوے(٪92)فصید، نائجرمیں اسی(80٪)فصید، چاڈ میں پچاسی(85٪)فصید، تنزانیہ میں ترسٹھ(63٪) فصید،مالی میں نوے(90٪) فصیدہیں، لہذا افریقہ میں اسلام ایک بڑی فیصدکی شمار میں ہے۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز میں، صلیبیوں نے یہ فیصلہ کیا، کہ افریقہ کو ایک عیسائی براعظم ہوکے تبدیل کردیگے۔ بلکہ، انہوں نے کہا: ''ہم مسلمانوں کو عیسائیت میں داخل نہیں کریں گے کیونکہ یہ مسلمانوں کے لئے اعزاز کی بات ہے جس کے وہ مستحق نہیں ہیں۔ افریقہ میں مسلمانوں کی عیسائی کرنے کیلئے  (16 16671)چرچ کا ادارہ  ہے۔اور بدقسمتی سے، ہمیں مسلمانوں کی کاوشیں بیشتر موجودہ مغرب کے ممالک پر خرچ ہوتے ہیں، حالانکہ افریقہ ایک اسلامی براعظم ہے جیسے افریقہ اسلامی تاریخ سے برپور ہے، مگر تھوڑی بہت کوشش جو ہم مغربی ممالکوں پر خرچ کرتا ہے وہ افریقی براعظم کے ممالک پر خرچ کریں گے تو اسلام اس کی شان و شوکت سے واپس آئیگے۔

معزز مہمان:  اصل سوال یہ ہے کہ اگرچہ نائیجیریا میں چھہتر(76٪)فصید مسلمان،بیں (20٪) فصید عیسائی، اور(4٪)چار فصید دوسرے مذاہب موجود ہیں، اور اس کے ساتھ ہی نائیجیریا میں سرکاری زبان انگریزی ہے، حالانکہ مسلمان چھہترفصید کی ایک بڑے تعداد ہیں، نائیجیریا کی سیاست میں مسلمانوں کا کردار کہاں ہے اور کیا ہے؟ موجودہ حکومت میں ان کا  تعداد!!۱؟ کیونکہ بہت سے افریقی ممالک کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ اسلام کی اعلی تناسب ممالک ہوتوبھی سیاست میں پورا عیسائی لوگ ہیں، اور وہی لوگ ملک کی قیادت کرتے ہیں، جیسے: ایتھوپیا، جبوتی اور دوسرے اسلامی ممالک بھی اس میں شامل ہے۔

ماھر عبد اللہ: ٹھیک ہے.. بھائی صابری، سوال واضح ہے۔ بہت سراہا گیا ہے۔

 اب میرے ساتھ امارات سے خالد یوسف ہے، بھائی خالد، آگے بڑھو۔۔

خالد یوسف:  السلام علیکم ورحمت اللہ

ماہر عبد اللہ:  وعلیکم السلام

خالد یوسف:  میرا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمائیں: ''یہودی اکہتر گروہوں میں بٹ گئے تھے، اور عیسائیوں بہتر گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا، اور میری امت کو تہتر گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا،یہ پورا سوائے ایک جہنّم میں ہیں لیکن ایک، خدا کے رسول وہ گروہ کس ہیں؟وہ تو جس پر میں اور میرے صحابہ موجود ہوں۔ '' امام احمد نے روایت کیاہے مگر شیخ القرضاوی نے اس کی صحت کے بارے کچھ بی نھیں جانتا“ بتایا ہے ۔اس کے معنی کیا ہوگے اگر عقیدہ میں بدکاری نہیں تو پر اسے کیا مشکل ہے؟

مہر عبد اللہ: ٹھیک ہے، بھائی خالد، میرا مطلب ہے،  ہم ایک سوال بھی سننے کے بعد شیخ سے جو آپ نے پوچھا ہے اس کے بارے میں پوچھوں گا..، کیونکہ اب ہمارے ساتھ بھائی، سید سید الامین نیاس موجود ہیں،   براہ کرم بھائی۔۔۔

سید  الامین نیاز (ڈائریکٹر الفجر نیوز پیپر):   شکریہ،السلام علیکم ورحمت اللہ۔

مہر عبد اللہ: آپ کا استقبال ہے..

جناب الامین:  میں آپ اور آپ کے معزز مہمان کو سلام کرتا ہوں، میرے بھائی ابراہیم صالح، جن کو ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں، بھی، جو مکہ مکرمہ سے تعلق رکھتے ہیں اور افریقہ کے بارے میں جانتے ہیں،،اور ساتھ ہی اس نے افریقہ میں اسلام کے تعارف اور اس میں پھیلاؤ کی بہت وضاحت کی۔ میرے خیال میں اِس میں ایک اور پہلو بھی موجود ہے جس پر آپ ضرور توجہ دینی چاہئے، جیسے جو آپ نے افریقہ میں اسلام کے بارے میں اور افریقیوں کی تحریروں کے بارے میں بڑے پیمانے میں حوالہ دیا۔

اسلام میں، عرب دنیا میں اس کی اہتمام نہ دن گئی ہے، لہذا اگر کوئی عربی کسی افریقی کی عربی زبان سنتے تو حیرت زدہ رہتا ہے، حب اس کوپتا ہوتا ہے کہ یہ افریقہ یا سودان سے آرہا ہے ، تو پھر سب سے پہلے وہ حیرت سے پوچھتا ہے کہ یہ زبان کیسے بولی جائے؟!  اسلام اس مرحلہ تک پہنچا کہ عربی زبان پھیل گئی، 

پھر افریقا  نوآبادیات کا سامنا کرنا پڑا، نہ صرف اس وجہ سے کہ یہ اچھی چیزوں کو لوٹنے کے لئے آیا تھا، بلکہ اس لئے کہ یہ ایک مذہبی فتح ہونے سے پہلے ایک ثقافتی یلغار تھی، یعنی وہ اسلام کی جگہ چرچ سے کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ یہ پہلو کو جاننے میں ہم ناکامی ہے اور یہ لوگ عربی زبان کو بولتے ہیں انہون نے مذہب اسلام کو محفوظ رکھتے ہیں جب کہ وہ ہے وقت تصادم سامنا کرنا پڑتاہیں۔

دوسرا نکتہ زیادہ سنگین ہے، کہ عرب دنیا  ہمیشہ دوسروں کو سے  الزام لگاتا ہے۔انہوں کہتا ہیں کہ : یہ تصوف ہے، طریقے ہیں۔مگر  یہ طریقہ وہی ہے جس نے اسلام کو محفوظ رکھا۔                   

  جیسے  شیخ صالح ابراہیم نے شیخ عمر الفوطی کا ذکر کیا، شیخ عمر الفوتی نے ایک ہاتھ میں تسبیح مالا او دوسرے ہاتھ میں تلوارلے کر جاتے تھے، لہٰذا یہ مالا مذہب اسلام کو مستحکم کرنے میں اسکو مدد کیا جیسے قرأن پاک میں ہیں (بس اللہ کی ذکر سے دلوں کو تسلی ملتی تھی)۔ اور تلوار  دوسرا راستہ تھے۔ یہاں تک کہ شیخ محمد حفیظ مصری،(جسے شیخ ابراہیم جانتے ہیں..) لکھا تھا، ''داغر“ سے‘ ٹومبوکٹو“ تک تیجالیہ سلطنت کے شہزادہ تھیں شیخ عمر الفوطی،''، لہذا یہ سارے اثرات اچھے، قیمتی اور بہت وسیع ہیں۔ لیکن عرب دنیا گویا اس کی پرواہ بھی نھیں کرتی ہے اور ان کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ طریقہ ہیں، وہ کافر ہیں اور وہ صوفی ہیں، اور یہ شرک ہے،  ۔ کیا  تھلیل شرک ہے..؟ کیا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ پڑنے سے اسلام کے باہر جاتاہے؟ کیا رسول کی ولادت منانا شرک ہے؟! ،، ہمیں ایک اچھا جملہ ملا ہے کہ، شیخ حسن ندوی نے کہا: '' رحم ہو جو قبور کو عبادت کرنے والوں سے قصور کو عبادت کرنے۔'' قبروں کی زیارۃ کرنے کے میں دوسروں پر ان کا الزام لگایا جاتا ہے، اور آخر میں مجھے شیخ ابراہیم کا وہ کلام یاد آرہا ہے کہ، انہوں نے کہا: ''یہ مذہب.. عرب سے یہ مذہب باقی ہوتاہے اور غیر عرب سے یہ مضبوط ہوتا ہے۔'' لہذا اگر ہم سمجھتے ہیں تو یہ مذہب پھیلتا اور مضبوط ہوکر رہیگے، ان شاء اللہ۔

ماہرعبد اللہ: بھائی.. شکریہ بھائی۔

جناب الامین:   میں اس حدسے مطمئن ہوں کیونکہ آپ ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو اس شعبے کو اچھی طرح جانتے  ہے۔

ماہرعبد اللہ:   ٹھیک ہے، آپ کا بہت بہت شکریہ اور اس کا مطلب ہے..  آپ سنیجال سے اس محفل میں جو ابراھیم صالح سے مشارکہ کرنے سے ہمیں بہت معززیں ہیں۔

ابراہیم صالح:  اچھا۔

مہر عبد اللہ:  مجھے اجازت دیں،  کہ میں آپ کو براد ر خالد کا جواب دینے کا موقع دوں، میرا مطلب ہے، وضاحت کے لئے، یوسف القرضاوی نے  اس پروگرام میں اور نہ ہی کسی دوسرے میں مذاہب کے اجتماع کبھی بھی نہ چھوڑ دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو لوگ اپنے عقیدہ پر خواہشمند ہیں وہ ان کی باتوں یا الفاظ میں  درستگی کی عکاسی کریں، شیخ یوسف القرضاوی مذاہب کے مابین مکالمے کا مطالبہ کرتے ہیں، اور مذاہب اور اتحاد کے مابین بات چیت کا مطالبہ کرنے کے درمیان ایک بہت بڑا فرق ہے۔ اگر اس بات کو سمجھ نہ سکتے تو اس کو بہترعلماء کی مجلس سے دور رہنا ہے۔

جناب، : کفارہ کا مضمون، اسی وجہ سے، آپ نے پادری کے بارے میں ایک بہت ہی خوبصورت کہانی کا تذکرہ کیا  کہ مصر کے برادر صابری کے بیان کے برعکس نائیجیریا میں عیسائی مسلمان سے زیادہ ہیں،۔ تو پھر اس کا مطلب یہ کیا ہے کہ کفارہ الزام سے  ان حرکتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے؟

افریقہ میں مسلمانوں کی اختلاف اور تفرقہ کے مسائل

ابراہیم صالح الحسینی: حقیقت ہے  سچ ہے... برادری صابری کے الفاظ اچھے اور بہت قیمتی ہیں، اور اس کی آخری نکتہ کہ، نائیجیریا، مسلمانوں کی اکثریت ساتھ ہی یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ اس کا مطلب بہت اہم ہے اور - اگر وقت ہے تو میں بیان کروں گا۔

 افریقہ کے مسئلے کی بات  - جیسا کہ میں نے کہا تھا - اسلام امن کی ہاتھوں سے افریقہ میں داخل ہوا۔

مہر عبد اللہ: می ں.. میں چاہتا ہوں کہ آپ یہ بتا دیا کہ، در حقیقت افریقہ میں اسلام امن و سکوں سے پھیل گیاہے، اور اس کے ساتھ رواداری، ساتھ تفہیم  اور عقلی مکالمہ بھی  ہوا۔ لیکن اس کے بعد.. بیداری کے بعد،جب حکمران میں اور معاملات کو چلانے کے قابل بنیں تو افریقی باشندوں کو حقیقی اسلامی دعوت کے اہداف حصول کے لئے روانہ ہونا تھا۔، لیکن انھوں نے ذیلی امور کے بارے میں بھی اختلاف کرنا شروع کردیا ہے جو اسلام کے فرائض یا اس کی اصولوں میں شامل نہیں تھیں،۔ اسی وجہ سے ایک مضحکہ خیز  بات واقع ہوئی۔ ہم نائیجیریا میں - جیسا کہ بھائی نے کہا - کہ نائیجیریا میں مسلمانوں کی تعداد چھہتریا اسے زیادۃفصید تک پہنچ جاتی ہے، اور جنوب میں بھی.. اکثریت مسلمان  ہیں، اس بات کا ثبوت ہوکر ہم یہ کہتا ہے کہ نائیجیریا کی تاریخ میں کبھی بھی،لاجوس میں انتخاب کے ذریغے غیر مسلمان نہیں ہوا ہے۔، اور(لاگوس ڈی) جنوب کا دارالحکومت ہے، اور اس پر ہمیشہ ہی مسلمان حکومت کرتے ہیں، اور یہ بات نائیجیریا میں مسلمان کی اکثریت کے ثبوت ہیں۔

ایک دفعہ ایک شخص (جوس)  یونیورسٹی میں آیا، جسے پادری (سبیہ) کہا جاتا تھا۔، اور اس نے کہا کہ وہ  نائیجیریا میں اکثریت کون ہے؟ کیا  اکثریت مسلمان ہیں، یا عیسائی ہیں؟  اس معاملے کی تحقیقات یا تجزیہ دینا چاہتا ہے اور اس نے کہا کہ مسلمانوں کی گواہی کے مطابق اکثریت عیسائی لوگ ہیں، تو لوگ حیران ہوئے کہ عیسائیوں کی اقلیت کے باوجود  کس طرح مسلماں گواہی دیتے ہیں کہ اکثریت عیسائی لوگ  ہیں۔

اُس نے ان سے کہا:   یہاں (جوس) میں ئیجیریا کے باقی مسلمانوں سے مختلف مبلغین کا ایک گروپ ہے۔ تو فلانی نامی اس گروہ نے کہتا ہے کہ جو لوگ ان کے خلاف ان کے سامنے کڑھتے ہیں ان سب کافر لوگ ہیں۔ اور ان کے خلاف لوگ ان کے نبی کے حدیث ابھرتی ہے کہ “کبھی ایک شخص اسے بائی کو کفر سے الزام لگایا تو ان میں سے کسی نے اس کا ارتکاب کیا ہے“۔

'' اس طرح ایک جماعت ان کا یہ بات سے کافر بن جاتے ہیں۔ اور دوسرے جماعت نبی کی قول سے کافر ہوجاتی ہے.. اگر ہم عیسائیوں کی تعداد لیں تو.. عیسائی اس کی رائے کے مطابق سینتیس(37٪)فصید ہیں، اور ان کافرکرنے والوں کی تعداد چار فصید ہیں، اور کافرہوئے مسلمانوں کی تعداد.. یہ تقریباً ستائیں یا تیس فصیدہے، اگر ہم اس مجموعہ (اکتیس فصید) کو عیسائیوں کے سینتیس فصیدسے اضافہ کرے تو .......

مہر عبد اللہ:  تو مسلمان اکثریت بن جائیں گے۔

ابراہیم صالح الحسینی:   نہیں،افسوس، مسیحیوں کی اکثریت ہوتے ہے۔ تو وہ پاتری نے کہا کہ“میں اس منطق سے فیصلہ کرتا ہوں کہ عیسائی لوگ اکثریت ہے۔

، حقیقت یہ ہے کہ یہ تقسیم اور اختلافات افریقہ میں مسلمانوں کو تکلیف دیتا ہے، وقتا فوقتا ہونی والی یہ اختلاف دلوں کو متاثر کرتے ہیں، سیاست کو متاثر کرتے ہیں، معیشت کو متاثر کرتے ہیں اور معاشرتی پہلو کو متاثر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ مسلمانوں کے غلام پہلو پر بھی اثر ڈالتا ہے،  لیکن اللہ کی توفیف سے آج دنوں میں اس میں کچھ تغیر ہوا ہے اور نقطہ آغاز پر واپسی شروع کیا ہے،  خدا تعالی نے یہ سب ختم کر ایک احھی نتیجہ ہم کو عطا فرمائیں  ، ہم اس مقام پر پہنچ چکے تھے کہ اگر دشمن کسی اسلامی ملک میں داخل ہوتا ہے اور کسی ایسے حصے کے ساتھ جنگ شروع ہوجاتے تو دوسرا حصہ مدد نہیں کرتا ہے، تواس طرح دشمنان اسلام کو اسلام پر قضاء کرسکتا ہے۔

 اور میں برادر(صابری)کے سوال سے کہ  نائیجیریا میں مسلمانوں اکثریت ہیں، مگر، حکومت میں ان کا وزن اور مقام کدر ہے؟

میں کہتا ہوں کہ  نائیجیریا کی موجودہ صورتحال -  آپ اس نظام کو جانتے ہیں.. سیکولر نظام نہ صرف نائیجیریا بلکہ دوسرے خطوں میں بھی۔ اور جب افریقہ میں استعمار (colonialism)داخل ہوا تو صرف علما ہی  مقابلہ کیا، اور صرف علما کو علیحدگی کی،اور ایک مختصر عرصے ان سے کام لیا ۔ کیوں کہ وہ اپنے نظریات لوگوں تک علما کی ذریغے پہنچا سکتا تھے، کیونکہ. وہ عربی زبان کو جانتے ہیں، لہذا وہ ان کے حکم کے مطابق لوگوں سے خطاب کرتے ہیں۔بس اس دورے میں انہیں ان کی ضرورت تھی، اس کے بعد علما اسلام اور            اور امراء کے درمیاں اختلاف پیدا کر، انہوں اپنے راہ پر چل پڑے جس نے وسیع و عریض خلا کو روکا۔

ماہر عبد اللہ:  مجھے اجازت دیجئے،  آپ نے بتایا کہ سرکاری (لاگوس) ہمیشہ ایک مسلمان کو منتخب کرتا ہے، اور اس سے اکثریت ظاہر ہوتی ہے، لیکن.. نائیجیریا جمہوریہ کے صدر،؟.

ابراہیم صالح الحسینی:   جمہوریہ کا صدر.. جمہوریہ کا صدر ہمیشہ عیسائی نہیں ہوتا ہے۔ وہ ایک مسیحی ہے، کیونکہ نائیجیریا کی تاریخ میں (سوائے اس آخری عصر) عیسائی صدر کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس آخری مدت کا بیان مجھے نہیں کرسکتا، کیوں کہ میں اس کا بیان کرنا نہیں جانتا ہوں،  یہ غفلت ہے۔  ایک ایسا معاملہ جو واقع ہوا کیونکہ مغرب کی طرف سے نائجیریا کے خلاف، امریکہ، برطانیہ اور باقی یورپ کے تمام ممالک جنگ شروع کی گئی تھی۔ اور نوآبادیاتی دور کے بعد اب تک شمالی لوگوں نے نائجیریا پر حکمرانی کی۔ یہ پورا دور جنوبیوں کے حق ہوکر نہیں بدلا ہے۔اس وجہ سے، شمالی لوگوں نے... شمالی جذبہ سے چار سال حکومت میں مسلمان کوچھوڑ دیا  ۔

ماہر عبد اللہ: تو... پھر بات۔؟

ابراہیم صالح الحسینی:  ، صحیح یہ ہے، کہ اب تک اسلام کی اکثریت ہے، اور مجھے امید ہے کہ خدا کی توفیق سے بات ایسا ہی چلیگے، مستقبل ہر چیز کو طے کرنے کے لئے کافی ہے۔

ماہر عبد اللہ: ٹھیک ہے،

ایسا کیوں نہیں تھا؟ اگر ہم برادری صابری کے سوال پر واپس جاتے تو، عربی زباں کے باوجودن کے ساتھ وہ سرکاری زباں عربی ہونے چاہتا تھا، لیکن یہ تو کیا ہیں؟..

ابراہیم صالح الحسینی:  یہ نائجیریا میں عربی زبان پھیلی ہے۔

ماہر عبد اللہ: ایسا کیوں نہیں؟

ابراہیم صالح الحسینی: نائجیریا.. میں عربی زباں بڑے پیمانے پر مسلمانوں میں پھیلا ہوا ہے، لیکن اب یہاں چار زبانیں مقامی زباں کے ذریعے سمجھی جاتی ہیں، ہر ایک اپنی جگہ پر ایک سرکاری زبان ہے، لیکن(ھوسا) زبان - جیسا کہ میں نے کہا ہے - تمام نائیجیریا میں انگریزی کے بعد دوسری زبان ہو کر سمجھ جاتی ہے، وہ چار زبانیں یہ ہیں: ہاؤسا کے علاقے میں ہوسہ  زبان، بورنو کے علاقے میں کنوری زبان،  مغربی نائیجیریا کی یوروبہ علاقے میں یوروبا زبان اور مشرقی نائیجیریا میں ایگبو زبان۔ یہ مقامی زبانیں ہیں، اور ان کی جگہوں پر اسے سرکاری زباں ہوکے سمجھا جاتا ہے۔ انگریزی زباں اس مختلف ہوئے خطے کے باسیوں کو ر اکٹھا کرتی ہے، حالانکہ یہ واقعی استعمار(colonialism) کے ایک غلطی اور ناانصافی ہے،اور یہ امید کرتا ہوں کہ عربی زبان دوبارہ اس کی مجد تک واپس لوٹ آئیگے، کیونکہ یہاں نائیجیریا کے لوگوں کو متحد کرنے والی کوئی دوسری زبان نہیں ہے، جو ادو سو پچاس کے قریب مختلف بولیاں ہیں، اور ان تمام بولیوں کو اکٹھا کرنے کو انگریزی اور(ہوسا) کے بغیر  ایک بولی موجود نہیں ہے،.. انگریزی ہر ایک کی زبان بن چکی ہے۔ اب ان لوگوں کے لئے اس نوآبادیات(colonization) سے ہوئی انکریزی زبان سے کام کرنا  ضروری ہو چکا ہیں،  لیکن میرے بھائی صابری، اگر آپ افریقہ کی حقیقت پر نگاہ ڈالیں تو، آپ کو معلوم ہوگا کہ تمام مغربی ممالک کے نوآبادیات نے ہر ملک میں تأثیر کیا ہے، اور ادھرکی رسم و رواج پوراتبدیل یا مسخ کر دیا ہیں، یہاں تک کہ سیاست میں بھی افریقی عوام کو  ایک ایسے پل پر چھوڑ دیا جو سمندر کے وسط حصے پر ختم ہوتا ہے۔...۔ اور سیاست میں، ہم نے مغرب سے مفید پالیسی نہیں سیکھی حیسے کبھی معاملات تنگ ہوجائیں یا.. یا تباہی  ہوجائے تو ہم  چھٹکارا پائے گا،ایسے کچھ بھی ہم انکی سیاست میں نہیں مل سکتی ہیں،   جیسا کہ آپ جان سکتھے ہیں کہ افرقہ کی ممالک مغربی اقتصادی نظام پر قائم تھیں، جہاں تک کہ اس پالسی نے ان کو ایک بڑی مشکل کے درمیاں چھوڑ دیا تھا جس سے نکل نہیں سکتے تھے۔ افریقہ کی ہر پہلو میں استعمار تاثیر کی ہے مثلاً ثقافتی طور پر، ۔ یہی وجہ سے یہ بات صحیح ہے کہ اب افریقہ تعمیراتی مراحل میں ہے، اسی لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ افریقہ اپنے اصالت میں پہنچا ہے، لہذا ہم مستقبل میں امید کرتے ہیں کہ لوگ اپنے اصالت کی طرف لوٹ آئیں گے،۔ہم نائیجیریا اور نائیجیریا کے علاوہ دوسرے میں بھی ہم یہی امید رکھتے ہیں۔

ماہر عبد اللہ: مصر سے (عطا ابراہیم)، اب ہمارے ساتھ موجود ہے،  بہن، براہ کرم، ہم چرچا پر واپس آئیں گے..

عطاابراہیم:  ہیلو، السلام علیکم۔

ماہر عبد اللہ:وعلیکم السلام۔

عطا ابراہیم: میرے پاس، شیخ ابراھیم صالح سے  دو سوالات ہیں۔

ماہر عبد اللہ: آگے بڑھو۔

عطا ابراہیم: بہت سارے افریقی ممالک رسول کی ولادت منانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو اس کی وجوہات اور کیا ہیں؟

ماہر عبد اللہ: وجوہات، کیا آپ سوال دہرکرا سکتے ہیں؟

عطا ابراہیم:  ان کی پرواہ ہے کہ... پیغمبر کی سالگرہ منانے کی وجوہات..؟ میں ان وجوہات کو جاننا چاہتا ہوں اور جس کی وجہ سے وہ اسے مناتے ہیں؟

مہر عبداللہ: کیوں مناتے ہیں؟ٹیھک۔اور دوسرے سوال؟

عطا ابراہیم: میرا مطلب ہے کہ یہ منایا جاسکتا ہے یا نہیں۔؟

ابراہیم صالح الحسینی: دوسرا سوال؟

عطا ابراہیم: افریقہ میں اسلام سب ایک ہے یا بہت فرق ہے؟

ماہر عبد اللہ:   ٹھیک ہے، بہن شکریہ،

اب میرے ساتھ محمود، معذرت،  برطانیہ سے صلاح محمد ہیں۔براہ کرم آگے بڑھو۔

صلاح محمد: السلام علیکم۔

ماہر عبد اللہ: وعلیکم السلام۔

صلاح محمد: میں لیبیا سے ایک مصنف ہوں، اور میں نے..  ''الجوامع الأبوبیہ فی اأعیان علماء لیبیا من المالکیہ۔ ' کے عنواں میں ایک کتاب لکھا تھا.........۔

ابراہیم صالح الحسینی: شاباش۔

صلاح محمد:   اس کتاب میں میں نے افریقی ممالک میں اسلام پھیلانے میں لیبیا کے علماء کی کوششوں کا ذکر کیاہے، اور واقعتا مجھے حیرت ہے کہ ہمارے پیارے شیخ نے اپنی گفتگو میں اس اسلامی تحریکوں کے بارے میں نظرانداز کیا، سنوسیہ تحریک کے بارے میں.......

ماہر عبد اللہ: ہیلو،  میری خواہش ہے کہ بھائی صلاح سے دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو، (فان کٹ ہوا) ۔ٹھیک ہے،  میرے اب ساتھ سعودی عرب سے برادرممحمود احمد ہیں۔

محمود احمد: ہاں، ہیلو، السلام علیکم۔

ماہرعبد اللہ: براہ کرم، السلام علیکم۔

محمود احمد:  خدا آپ سب کو بھلائی عطا کرے۔

ماہر عبد اللہ: خوش آمدید۔

محمود احمد:  اور میں خدا سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ کو اپنے پروگرام میں کامیابی عطا کرے جو آپ نے بہترین کے ساتھ پیش کیا۔

ماہر عبد اللہ: خدا آپ کو سلامت رکھے۔آگے بڑھو.......

محمود احمد: خدا آپ کو سلامت رکھے، آپ کو  اور اپنے مہمانوں کو بھی ہمیشہ کامیابی عطا کرے جس کی آپ میزبانی کرتے ہیں۔

ماہر عبد اللہ: خدا آپ کو سلامت رکھے۔

محمود احمد:  دراصل، افریقہ کی اسلامی سلطنتوں کے بارے میں میری پاس ایک سیدھی ساری مداخلت ہے، میں.. میں تحقیق اور تعلیم کیلئے پوری دنیا کے اسلامی ممالک تک سفر کیاہے، خصوصاًافریقی براعظم۔، اور میں نے انیس سو ستتر میں (ٹمبکٹو) پہنچا، اور احمد بابا کا مرکز پایا، یہ ایک چھوٹا سا آئتاکار کمرہ تھا، لیکن میں نے ہزار سال سے زیادہ پرانی،حسینی خط میں لکھے ہوئے نسخوں کو حاصل کی...  لیکن مشرقی باشندوں کی حیثیت سے اس کو پڑھنا ہمارے لئے مشکل کی بات ہے، کیونکہ فا کو وہ ڈاٹ نہیں تھا اور قاف ایک ڈوٹ والی تھی،لیکن خدا کی مدد سے مجھے وہ پڑھا سکھا.. میں امام بخاری کی ایک تحریری نقل حاصل کرلیا..۔ اس سفر سے میں ساتھ سو سال پرانی ایٹ سے تعمیر ہوئے جامع الکبیر کو بھی دیکھا، لیکن جب مجھے یہ سمجھ کے حیران ہوئے کہ اس وقت کا بادشاہ اس کا نام تھا (میرے خیال میں موسیٰ ٹورور) تھا - جب وہ حج کرنا چاہا تواپنے سپاہیوں کوجمعہ کے دن کیلئے خودکوایک  مسجد تعمیر کرنے کے لئے بھیجتا تھا، اور اس کے پاس حج کے خرچ کیلئے سونے سے لدے ایک ہزار اونٹ تھے، لہذاس کی معیشت اور علمائے کرام اور اس سلطنت کی تصویر کشی کرنا سکتا ہیں، مجھے انہوں کی طرح علما اور فقیہ لوگوں کو جزیرہ عرب میں بھی نہیں مل سکتا۔،میں نے حقیقت کہتا ہوں کہ میں نے انہیں کی جیسے علم، آداب، اخلاق اور احسان مند لوگوں کبھی بھی نہیں دیکھا ہوں،۔

 ان تمام باتوں کے نتیجہ بڑے افسوس کے بات ہیں کہ ہمارے پاس جوہریا ہیرا موجود ہیں، لیکن ہم چھلکے کو پکڑ کر اس پر راضی رہتے ہیں اور جوہر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم ٹمبکٹو سے کہاں ہیں؟،  وہاں موجود اسلامی خزانے نکالنے کے بارے میں کیا بات ہیں؟ اور  ان جیسے افریقہ میں بہت سے ہیں۔

ماہر عبد اللہ:  ٹھیک ہے، بھائی، محمود۔

محمود احمد: میرا مطلب، اگر آپ مہربان کئے تو میں نے اور ایک نقطہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔

مہر عبد اللہ: براہ کرم۔

محمود احمد:  اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔ آپ ہمیشہ شیخ القرضاوی اور متعدد مہمانوں کے ساتھ بھی،ہمیشہ ''پیغمبر کی یوم پیدائش منانا''  ا س موضوع پر تبادلہ کی خیال کرتے ہیں۔ پہلے، میں اسے جشن یامولد نہیں کہتا ہوں، لیکن میں اسے ایک اور الگ نام سے پکارتا ہوں کہ خوش خبری خوش رہنا جو خدا نے تمام جہانوں پر رحمت بنا کر بھیجا ہے، (اور مومنوں سے رحمدل اور رحیم ہے)، (اور آپ سیدھے راستے پر گامزن ہیں)۔ یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ رسول ہی تھی پہلا شخص  جس نے اپنی پیدائش منائی - - اور اگر میں غلط ہوں تو میں شیخ سے سوالگو ہوں کہ وہ میری صحیح کرے۔

مہر عبد اللہ: ٹھیک ہے، بھائی، محمود۔

محمود احمد:  نہیں، لیکن میں یہ بھی کہتا ہوں کہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رسول سے پوچھا،: اے اللہ کے رسول، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ پیر کے روزے رکنے کو بڑا اہمیت دیتے ہو، تو کیوں؟ رسول  ان کا جواب دیا - ''یہ وہ دن ہیں جس میں پیدا ہوا تھا۔'' تو رسول  نے روزہ سے چشن کی۔

ماہرعبد اللہ: بھائی محمود، شکریہ۔

محمود احمد:   '' یہ وہ دن ہے جس دن مجھے بھیجا گیا تھا،، اور جس دن مجھے نبوت مل گیا تھا اور وفات پایا۔''

ماہر عبد اللہ: ٹھیک ہے، ہم واپس آئے..  شکریہ، ہم شیخ کی طرف سے تہمارے اس بات کے بارے اور بہن عطا کی سوال میں تبصرہ سنیں گے۔

میں اس سے شروع کرتا ہوں..  ٹمبکٹو میں ہزاروں مخطوطات؟دسیوں یا سیکڑوں کے بدلہ ہزاروں استعمال کیا ہیں؟

ابراہیم صالح الحسینی:  واقعتا - ٹمبکٹو، خاص طور پر احمد بابا مرکز، اس بڑی لائبریری پر ہونے والی لوٹ مار کے بعدبھی بہت سے نسخہ اکٹھا کیاہیں، تاریخ کے بہت سارے اہل علم نے اس کا ذکر کیا ہیں۔ فرانس نے اس کو لوٹ لیاتھا، اور ان میں سے بہت ساری کتابیں پیرس(paris)سے منتقل کردی گئیں، وہ ان کے پاس محفوظ ہیں۔اس سب حالات کے باوجود کتابیں کی ایک بڑی تعداد اب تک اس مرکز میں باقی ہے جس پر مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی بہت سی اسلامی ریاستوں میں بھی۔ مثال کے طور پر، ہمارے پاس کڈونا میں مخطوطات جمع کرنے کا ایک مرکز ہے۔ یہ نائیجیریا کے اسکالرز کی کتابیں ہیں جن میں شیخ عثمان بن فوڈیو شامل ہیں، جیسا کہ ہم نے کہاتھا، عبد اللہ ال فوڈیو، اور محمد بلیو نیز شیخ محمد الامین الکانامی، شیخ عبد اللہ الثیقہ، شیخ الدباغ، شیخ محمد بن عبد الرحمن بن بنت الحاج، شیخ طاہر بن ابراہیم ورما، اور شیخ عمر ولید، شیخ سلیمان الولی، اور ان ممالک کے دوسرے علما کے  کتابیں بھی موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر ہم چاڈ کے وسطی علاقوں میں چلے جائیں تو ہمیں یہی بات ملتی ہے۔ ہمیں وہاں شیخ عبد الحق السنوسی کی تصنیف، شیخ جابر اور شیخ ابو راس کی کتابیں،  اور دیگر اور دیگر کتب ملتی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ادہربہت سے خزانوں موجود ہیں.. لیکن.. عرب اسلام ان تک نہیں پہنچ سکے۔.

مہر عبد اللہ: ، بھائی صلاح کا سوال کا جواب؟، بدقسمتی سے، اجلاس منقطع ہوگیا۔

ابراہیم صالح الحسینی:  ہاں، ہم نے ابھی تک  بہن عطا کے سوال کے جواب پورا نہیں کیا ہے۔

ماہر عبد اللہ: نہیں، میں.. میں اس بات پر آرہا ہوں، لیکن ان کے ساتھ گفتگو میں خلل پڑا تھا۔مجھے یقین ہے کہ ہم.. میں.. ہم سینسوسی کے کردار کو نظر انداز کرنے کا مطلب نہیں رکھتے تھے۔

ابراہیم صالح الحسینی: نہیں.. بالکل نہیں۔سنوسی.. کا زمانہ میں قادریہ کے رہنما ہوئے شیخ عثمان بن فوڈیو، اور تیجانیہ کے شیخ ہوئے عمر بن سعید الفوطی،، اور شیخ محمد احمد المہدی،بھی  تھی، مہدی کو ایک طریقہ نہیں تو بھی لیکن وہ مہدیہ کا ایک مجدد کے طرح پیش آیے ہیں۔اسی طرح، سنوسی امام سینسوسی تجدید تحریک کے رہنماتھے،،  اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ قذافی شیخ کو بے احترام قرار دینے کے ارادے سے اس کو نظرانداز نہیں کرتے ہیں،..، لہذا میں یہ سمجتا ہوں کہ اسلامی تحریکیں نے تمام مصنفین، خاص طور پر وہ لوگ جو ایک خاص نقطہ نظر سے، یا مخصوص فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے لکھتے ہیں، ان سب کے ذریعہ ظلم کیا جاتا ہے۔ لیکن جب ہم افریقہ میں نظر آنے والی حقیقت زندگی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو، کوئی بھی ان لوگوں کے کردار کو انکار نہیں کرسکتا ہے۔

ماہر عبد اللہ:  اگر آپ مجھے اجازت دیتے... اگر ہم سسٹر عطا کے سوال پر واپس چلے جاتے، کہ افریقہ میں اسلام متحد ہے یا مختلف؟  میں اس سوال سے پہلے آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں،کہ جب اسلام افریقہ میں داخل ہوا، تو کیا افریقہ اسلام کے ساتھ اسلام قبول کرلیا، یا اسلام افریقیہ کو قبول کرلیا؟

افریقہ میں مغربی نوآبادیات اور مشنری سازشیں

ابراہیم صالح الحسینی: در حقیقت، مسلمان کے تمام رسم و رواج کو لازمی طور پر اسلامی ہونا چاہئے، اور ہر ایک مسلمان اپنی روایات اسلامی بننے کی ہرکوششیں کرنالازم ہیں، اور ایک شیخ اپنی شاگرد کوسبق دینے وقت پہلے یہ سبق کی ارشاد دیتے ہیں کہ اپنی روایات کے مطابق ہونا چاہئے،ہم عادت کورواج کہتے ہیں،اسی طرح۔ افریقہ، میں جب اسلام پھیل چکا،اور لوگوں نے مذہب اسلام کو سینے سے لگایا،تو رواج اور روایات سب اسلام کے مطابق ہو چکے،،اور افریقہ میں جب نوآبادیات شروع ہو،تو ان سب اللہ کے کتاب اور نبی کریم  کی سنت کے مطابق کام کرنے لوگ تھیں۔ اور اسلام کے عدالت میں حکومت چلتی تھی،شرعی احکام قائم کر رہی تھی۔ پھر نوآبادیات آیا،اور مذہب کو ریاست سے الگ کردیا اور اسلامی شرعی احکام کو وقف کردیا ، پھراس امت اسلامیہ کو چالاکی کے ذریعہ غائب کرنے کا ہر کوشش کی، تو  اس طرح مسلمانوں کی رسم و رواج، اقوال و عقائد میں بدعات اور نئے رواج داخل ہوا۔، یہ جو منفی ہیں اس کو  علمائے کرام مزاحمت کر اسے درست کرنا چاہئے۔  اسلام افریقہ میں غیر اسلامی رسم و رواج پر قابو پالیا ہیں، سوائے افریقہ کی کچھ علاقوں جیسے.. کانگو کے علاقوں  مثال کے طور پر، اسلام نے ادہر پہنچھاہیں،لیکن وہاں مسلمانوں کی رہنمائی کرنے کیلئے کافی تعداد میں علماموجود نہیں ہیں۔ اسی طرح، کچھ علاقوں، مثال کے طور پر افریقہ کے پہاڑوں یا جنگلات، ان خطوں کے باشندوں کے درمیاں محض پیار اور تجسس کے ذریعہ اسلام پھیل کیا ہیں، لیکن حقیقت میں یہ اسلام ہی تھا جس نے افریقہ کو اسلام بنا لیا۔

مہر عبد اللہ: افریقہ۔

ابراہیم صالح الحسینی:  اسلام نے افریقہ کو الگ نہیں کیا۔

ماہر عبد اللہ: ٹھیک ہے، اور میں آپ کو اس کے لئے ایک بار پھر اس کا حوالہ دوں گا کیونکہ اس میں فرق ہے، لیکن میرا مطلب ہے کہ مجھے اور ایک کال ہے۔

ابراہیم صالح الحسینی: ہاں، میرا مطلب ہے، جاری رکھیں، کیونکہ..

ماہر عبد اللہ:  نہیں، میں کچھ کالز  لینا چاہتا ہوں، پھر میرا مطلب ہے، ہم بات ختم کردیں گے۔

ابراہیم صالح الحسینی:  ٹھیک ہے، ٹھیک ہے،، ان شاء اللہ۔

ماہر عبداللہ:  میرے ساتھ بنیں ملک سے بھائی محمد الشھومی، بھائی محمدبراہ کرم آگے بڑھو،،۔

محمد الشحومی:  السلام علیکم ماہر استاد، اور ہمارے پروفیسر، شیخ، ہمارے پیارے مہماں کو خوش آمدید۔ میں جو کچھ واضح کرنا چاہتا ہوں وہ جو افریقہ میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے بڑے ناانصافی کی حقیقت ہے۔یہ سچ ہے کہ افریقہ نوآبادیاتی کا نشانہ بن گئے ہیں۔افریقیاخصوصاًوسط اور مغرب میں،سوائے استعمار کے ذریعہ، عیسائیت کو نہیں جانتی تھی۔

ابراہیم صالح الحسینی: بالکل۔

محمد الشحومی:  یقینا یہ ایک ایسا مذہب ہے جو استعمار کے ذریعہ لایا، لیکن یہ ایک موقع کہ تعلیمی اداروں سے انہون نے بہت لوگوں کو عیسائی کر دیا جیسے ہر جو تعلیم حاصل کرتا ہے وہ سب عیسائی ہونے شروع ہوا ، اس میں ایک بڑی تعداد اصل میں مسلمان ہے مگرفرنسی یا انگریزی تعلیم یاریاست میں پہنچھنے کے بعد عیسائی ہوگئے۔لیکن افرقیہ میں اکثریت مسلماں لوگ ہیں، ذاتی طور پرمیں شمالی افریقہ سے ایک عربی ہوں، اور میں الدعوت الاسلامیہ“ کی انجمن سے تعلق رکھتا ہوں جس سے ہمارے شیخ تعلق رکھتے ہیں،۔ میرا مطلب ہے، میں نے افریقی کی جنگل باشندوں میں جو کچھ دیکھا وہ ساری زندگی میں خدا کے قانون کو لاگو کرتے ہیں۔ نماز چھوڑنے والے ایک افریقی مسلمان کو ملنا بہت کم ہے،۔ وہ روزہ رکھتا ہے، چوری بہت محدود ہے، پوری امت سلامت میں ہے،۔اب ہم مہتدین نامی ایک جماعت کودیکھ سکتے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں مسلماں ہوگیا ہیں، اس لوگ اسلام کو دوبارہ قائم کرنے کو سر توڑ کوشش کرتا ہیں۔افریقہ میں ابھی بھی اسلام اکثریت ہے،مگر حکومت کے اداروں میں وہ کہاں ہیں؟ حکمرانی میں مسلمانوں کا کوئی وجود نہیں ہے، لہذا میں اب شیخ ابراہیم صالح سے یہ کہہ رہا ہوں،کہ ایک اسلامی حکمرانی اور حکومت کیلئے مسلماں سب متحد ہونا ضرور ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجدوں اور جامع نے مسلمانوں کے لئے انتظامیہ اور حکمرانی کا صدر مقام بننے کی کوشش کرنا ہے۔

ماہر عبد اللہ] مداخلت[محمد بھائی کی جواب،،۔

محمد الشحومی:  دوسری بات: تویہ ہے کہ مشرقی عرب دنیا سے ہونے آپس میں پسپا،نفرت،اور کفر کا الزام۔

ماہرعبد اللہ:  ٹھیک ہے، بھائی محمد، شکریہ۔اب  میری ایک آخری کال ہے۔ بھائی  - ألمانیا سے عبد الحمید حاج خضر، براہ کرم آگے بڑھیں۔

عبد الحمید حاج الحضر: بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلام علیکم۔

مہر عبد اللہ: وعلیکم السلام۔

عبدالحمیدالحاج الحضر: آپ کے مہمان،جناب،  کو سلام۔

ماہر عبد اللہ: خوش آمدید۔

ابراہیم صالح الحسینی: شکریہ۔

عبدلحمید حاجی خضر: بھائی ابراہیم، خدا اس کی حفاظت فرمائے۔

ابراہیم صالح الحسینی:  خدا آپ کو سلامت رکھے

عبد الحمید حاج الحضر:: میرے معزز بھائی، واقعتا ا س وقت میرے بات افریقہ کے بارے میں ہیں۔ یہ ایک مایوسی کی بات ہے، کیوں کہ ہم انیس کی ساٹھویں دہائی میں اسلام افرقہ میں پھیلا رہے تھے اور استعمار سے مسلمانوں آزاد کر رہے تھے، اگرچہ میڈیا محدودتھیں،  یعنی دمشق میں ''حضارۃ الاسلامیہ'' اور جینیوا میں ''المسلمون'' اخبار،  ڈاکٹر سعید رمضان نے شائع کیا تھا،  اور ہم افریقہ کے واقعات سے متعلق سبھ کہ بارے میں علم تھا، خاص طور پر جب صلیبیوں کی سربراہی میں بدقسمتی سے انقلاب اور بغاوت ہوئی اور.(. احمد بلیو اور ابو البکر تساع) اس میں مارے گئے۔...  اواسلامی ریاستوں کوظلم کی لپیٹ میں لے جائے، اور نائجیریا کے علاقوں میں ہوئے انقلابیوں او ر علیحدگی پسندوں کو دینے کے لئے  خاص طور پر یہاں جرمنی میں پروٹسٹنٹ اسلحہ خریدکے انہوں کو دیے تھے۔ یہ سب ہم جانتے تھے، لیکن اب سچ یہ ہے کہ ہم افریقہ سے لاعلم ہوکر ایکٹ کر تی ہیں، اور ایک ایسی چیز   دل کو گرم کرتی ہے۔ اور مغربی کے وجہ سے ادہر بہت سارے بیماریاں پھیل کئی ہیں، ایڈز کے جیسے بیماریاں بس ان کی وجہ سے ادہر پھلا کئی... مگر بس اسلام نے افرقہ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہیں،پھر افریقہ کو ایک لفظ میں تعریف دیے تو وہ“ جزیرالعرب کی توسیع ہے،  ہاں، جیسے، سوئز نہر صبح میں افریقہ میں اور غروب کے وقت آشیا میں ہوتا ہیں، یوروپ میں بھی۔  جبل طارق۔

ماہر عبد اللہ] مداخلت: [، بھائی عبد الحمید اس مداخلت کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ،  لیکن آپ اس وقفے کے بعد اس پرشیخ سے تبصرہ سنیں گے۔

 ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ الجزیرہ نیٹ پر شریک ہوسکتے ہیں کہ ہم اس پروگرام کے لئے باقی وقت مختص کریں گے www.aljazeera.NET.

]خبر[

کفارہ کے معاملات اور افریقی مسلمانوں کے مشکلات

ماہر عبد اللہ:  میں نے کال کے دوران، دیکھا کہ آپ کفر لگانے اور بدعت کی مسئلہ میں۔ میرا مطلب، یہ تھا... آپ تھکے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔

ابراہیم صالح الحسینی: بالکل نہیں۔

ماہر عبد اللہ: کیا افریقہ کی لوگ واقعتا پریشانی کا شکار ہیں، کیا؟ میں جانتا ہوں کہ تکفیر کے اس مسئلے نے عرب مشرق پر بہت زیادہ قبضہ کرلیا ہے۔

 

ابراہیم صالح الحسینی: آپ جانتے ہیں - جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے کہ - افریقہ میں اسلام تقسیم کو نہیں جانتا ہے، جیسے کہ اسلام کی ابتدا پرامن طریقے سے اور رواداری کے ساتھ ہوئی ہے اور واضح طور پرتھے، کیونکہ اسلام خود ہی ایک واضح بلا ہے،  اس کی صراحت کے ساتھ لوگ اس کو قبول کرتے تھے اور رضاکارانہ طور پر اسلام میں داخل ہوتے ہیں، جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اسلام افریقہ میں جنگ یا بعاوت سے نہ پھیل کیا ہیں مگر ان سنجیدہ افراد، اور صوفیوں کی کاوشوں سے پھیل گیاہیں،۔ لیکن یہ حالیہ عرصہ میں، جیسے.. ہم نے سینیگال سے آئے ہوئے پروفیسر الامین نیاس - اور برنن سے محمد الشھومی -کی باتوں میں یہ سنا ہے، کہ مسلمانوں یہ پسماندگی  اور اسے کمزوری کے اصل سبب بدعت سے ہیں۔

مسلمان کو ایک دوسرے کو کفر سے الزام لگانا مسلمانوں کو معلوم نہیں تھا، اگر ہم کسی کتابیں پڑھ کراس امت کی درجہ بندی کرنا چاہتے ہیں،تو  ایک بڑی غلطی کرنا ہوگی۔کیونکہ کبھی کتابیں کی مصنف موت پائے ہوگی اور ان کے نظروں اس عرصے میں بالکل ٹھیک نہیں ہوگی، مثال کے طور پر نبی کی چشن میلاد النبی کا مسئلہ، افریقہ میں مسلمانوں کے عقیدے سے چشن میلاد سے محبت بھی پیدا ہوتی ہے، اور اس موقع پر  عام لوگوں کو خاص طور پر رسول خدا کی بہت سی خصوصیات کی تعلیم دے سکتے ہیں۔ اور یہ سب اللہ کی کتاب و سنت کی تعلیمات پر مبنی ہے

ماہر عبد اللہ] مداخلت):  کیا آپ اتفاق کرتے ہیں  - کیا آپ برادر محمود احمد کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں..کہ چشن میلاد میں بہلا والارسول ہی تھا؟

ابراہیم صالح الحسینی:   میں یہ نہیں کہتا کہ اس نے منایاہے، لیکن رسول نے مسلم کی صحیح حدیث میں یہ اشارہ کیا ہیں کہ جب ان سے پیر کے روزہ رکھنے کی خواہش کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ذکر ہیں کہ میں اس دن میں پیدا ہو،میں نبوت سے بھیجا گیا،اور اس میں قرآن نازل ہوا،  اور اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن کے روزے رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اور اس بات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اگر رسول کی تعلیمات کی مطابق ہوتو اس موقع پر مسلمان اسکو پرواہ کرناضرور ہیں۔

افریقہ میں چشن مولد اسلامی پابندیوں کے ساتھ ایک اچھا راتے میں منایا جاتا ہیں۔جو چشن مولد مناتے ہیں وہ لوگ غور کرتے ہیں.. کہ چشن میلاد النبی، رسول اکرم  سے محبت اظہار کرنے کا ایک بڑا موقع ہیں۔جبکہ تم یہ کہے تو کہ اسلام چشن میلاد کومنانے کی حکم نہیں دنا ہیں، تو اسلام اسے روکا بھی نہیں ہیں۔۔ یہ ان سب کا جواب ہے۔

مگر افریقہ میں اسلام اور اسلامی دعوت کویہ خطرہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیاں تقسیم پیدا ہوئی ہے، اگر یہ تقسیم بند نہیں ہوئی تو اسے امت اسلامیہ میں بہت زیادہ عدم توازن پیدا ہوگا، مگر اسے پہلے ہم ایک ایسے دور میں تھے کہ دوسروں کے دلوں میں بھی اسلام کی عظمت تھی۔، یہاں تک کہ جب شمالی نائیجیریا کے شہروں میں نماز کی اذان اٹھائی جاتی ہے تو، سب کچھ رک جاتا تھا۔ یہاں تک کہ مسلماں اور عیسائی بھی مؤذن کو ختم ہونے تک انتظار کرتے تھے، اور جب وہ: ''لاالہ الا اللہ'' کہتے ہیں تو وہ چلنا شروع کردیتے ہیں، مگر اب پورا الٹاپلتا ہو گیا اور صرف ایک سال پہلے (کدونا) میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا..  جمعہ نمازکے دوران نماز پڑھنے والوں کی صفوں کی بیچ سے اپنے جوتا سے توڑنا شروع کیا.. اورمصلی سے باہر جانا چاہا، تو کچھ نوجواں لوگ اس سے ناراز ہو کر ادہر ایک جگڑا ہوااور یہ اس شخص کی موت کے ساتھ ختم ہوگئی۔ایسے باتیں موجود نہیں تھیں۔وہ مسلمانوں کا احترام کرتے تھے،... لیکن جب مسلمان ایک دوسرے کو کافر بننے کی کوشش کی اور خود اسلام کا احترام نہیں کیا، تو پورا تباہ ہو گئی۔

ماہر عبد اللہ: جب مسلمان ایک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں تو لوگ ان پر حملہ کرنے شروع کیا۔!

ابراہیم صالح الحسینی: تو، ان لوگوں مسلماں پر ایک راستہ پایا..

اشتہار کا وقفہ [

مہر عبد اللہ: جناب، میں ان سوالوں کی طرف لوٹاؤں گا جو فون پر آئے تھے، لیکن میرے پاس کچھ سوالات ہیں،،(بلوشی) بھائی پوچھتے ہیں کہ افریقہ میں اسلام سوداگروں کے ذریعہ پہنچا ہیں۔مگر جب ہم(تمبوکتو) کو ذکر کرنے کی وقت(کلوہ،ر زنجار)اور مسلمان اور اسلام کے حمایتی اور حفاظت میں عمانی سلطنت کے کردار کو نہیں بھول سکتی ہیں،  مشرقی افریقہ میں اسلام کی  پھیلاؤ  میں عمانی سلطنت کا کوئی کردار تھا؟

ابراہیم صالح الحسینی:  اس میں کوئی شک نہیں ہیں کہ افریقہ میں اسلام کی پھیلاؤ میں سلطنت عمانی ایک عمدہ کردار ہیں۔،واقعتا کلوہ میں ایک سو بائیس ہجری میں ایک زیدی وفد آیا  تھا،اور اسلام ادھر پھیل گیا ہے، لیکن اس خطے میں عمان کے کردار میں کوئی شک نہیں ہے۔ عمانی مملکت ان تمام خطوں میں اسلام کو پھیلادیا، اور بہت اسلامی شہر قائم کردیا ہیں جیسے: موگادیشو، (مارکا) اور (بڑوا)، اورادہرعمانیوں میں سے (منیری وباری)نامی ایک مشہور شخص تھا،جو ایک طویل عرصے تک وہاں اسلام کو انتشار کردیا۔ مختصر طور پر اس خطے میں، کلوا  یا عمانیوں کا کردار مغربی افریقہ میں ٹمبکٹو کے کردار سے قطعاًکم نہیں ہوتا ہیں، مثلاً، ان تمام خطوں کے علمائے کرام سے عمانیوں کی دلچسپی ایسی ہے جس کومثل کے طور پر مارا جاسکتا ہے۔ اسی طرح، ان خطوں کے علمانے اب تک عمانی ریاست سے وراست ملی روایات کو برقرار رکھتا ہیں اور ان سے یمن،  عدن، ابیسنیا، اریٹیریا، اور سوڈان کی کچھ خطوں میں بھی اسلام پھیل گیا ہے، یہ تمام کردار اور تمام کوششیں محفوظ ہیں۔

ماہر عبد اللہ:تیں یا چار سوال باقی ہیں،جن کے بارے میں پوچھا گیا تھا..

ابراہیم صالح الحسینی: براہ کرم۔

اسلام کی پھیلاؤ میں افریقی علما کا کردار

ماہر عبد اللہ:  مغربی اور شمالی افریقہ میں علما کے کردار پر، میں آپ سے ایک مختصر جواب چاہتا ہوں،۔

ابراہیم صالح الحسینی:، مختصر طور پر، مغربی افریقہ میں یا شمالی افریقہ میں علما کو ایک بہت بڑا کردار ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن ان ممالک میں - جیسا کہ میں نے کہا تھا - ان مبلغین کے ذریعہ ہوا ہیں جیسے نافعؓ کی قرائت ورش یا قالون کے روایت سے،اورابی عمر کے قرائت الدوری سے پہنچا تھا، یہ قاری افواہوں سے افریقہ میں قرآن پھیل گئی تھی۔ا۔ اسی طرح فقہ مالکی کے علما نے اسلام کیلئے بہت کچھ کیا ہیں،جیسا کہ آپجانتے ہیں کہ سارا افریقہ میں مالکی مکتب کی پیروں ہیں۔مالکی فقہ مغرب تک ان علمائے کرام کے ہاتھوں سے پہنچا، اور۔ لہذا،حقیقت یہ ہے کہ مغرب شمالی افریقہ سے لے کر لیبیاسے تیونس یا الجیریاتک، اور مراکش کے ساتھ ہی ساتھ اپنے کچھ پڑوسی ممالک، جیسے سینیگال اور مالی، اور (بورنو) اور (کانان) اور ہووس ریاستوں کے علاقوں کے سلسلے میں کچھ موریطانیوں کی کوششوں کے ساتھ ہر ملک میں مالکی فقہ کو ان علما نے پھیلایا۔

ماہر عبد اللہ:  ٹھیک ہے،   بھائی محمد یوسف ادریس‘ کہتے ہیں کہ: “ایسا لگتا ہے کہ چرچا آپ کو لے کر  مغربی افریقہ لے گئی ہیں۔مگر اتیوپیا تک واپس کرنا چاہتا ہوں جدھر مغربی استعمار اورنو آبادیات نے اس ملک کو پورا تباہ کر دیا ہیں؟  اس کے  وہ اسے ایک اسلامی امارات کہنا چاہتا ہے۔

ابراہیم صالح الحسینی: ایتھوپیا۔

ماہر  عبد اللہ:  میرا مطلب ہے، ہم نے ادہر کی  نجّاشی کے بارے میں ذکر کیا تھا۔، لیکن وہاں ہوئے تباہ زیادہ سخت تھی..

ابراہیم صالح الحسینی:  ہاں۔ در حقیقت، میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام واقعتاعرب منطقہ کے بعد تمام براعظموں سے پہلے افریقہ میں داخل ہوا، خیر مقدم کیا، جیسا کہ میں نے کہا، اتیوپیا  یا افریقہ نے رسول اکرم  کی صحابہ کرام کو خیر مقدم کیا ہیں -اور انہون نے ایک طویل عرصہ ایتھوپیا میں گزارا، تو کوئی شک نہیں ہیں کہ انہوں نے بہت اثر انداز کیا اور جب اسلام کی آمد شروع ہوگئی اور افریقہ کے اندر اسلام  بڑھنا شروع ہوا تو ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ایتھوپیا میں اسلام قبول کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان صحابہ کی صحبت والیں  تھی،۔ وہ علاقے (اووردائی)، چاڈ، نائیجیریا، (کانو) اور (کڈونا) علاقوں، (سوفیٹو) علاقوں اور..

ماہر عبد اللہ:  بھائی یوسف نے یہ پوچھتا ہوں، میرا مطلب ہے،کیا ابسینیا کے بارے میں بتانے والی کیا کوئی کتاب، اب آپ کے فکر میں ہے،کیا؟

ابراہیم صالح الحسینی:  خدا کی قسم، اس موضوع کے بارے میں ایک مجموعۃکتاب موجودہیں، اور ان میں سے اکثر کتابیں غیر اسلامی ہیں،عاطف النووی لکھی ہوئی ایک کتاب.. اس میں محمد عاطف النووی نے افریقہ اسلام کے بارے میں یہ گفتگو کرتے ہیں، اسی طرح  تلمانجم نے بہت سارے کتابیں لکھیں ہیں جیسے''الاسلام فی شرق افریقیہ ''، اور  مشرقی افریقہ میں شیخ عبدالرحمٰن ذکی کی کتابیں موجود ہیں، انہوں نے اس کتاب میں حبشیہ کے بارے میں بات کی، ایتھوپیا کے خود زباں کے ساتھ ابیسینیا کے بارے میں لکھی ہوئی اور بھی کتابیں موجودہیں، میں نے اس سے پہلے انھیں پڑھا، مگر ناموں یاد میں نہیں اآتا ہوں،۔

مہر عبد اللہ: میں.. جیسا کہ آپ جانتے ہیں بھائی علی یوسف یہ بھی پوچھتے ہیں کہ: کیا افریقہ میں اسلام کے بارے میں گفتگو کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر کوئی سائٹ موجود ہے؟

ابراہیم صالح الحسینی: ،ہاں کچھ تو موجود ہیں مگر میں ان افراد کا ذکر نہیں کرسکتا، لیکن وہاں موجود ہیں... انٹرنیٹ پر،۔

ماہر عبد اللہ:  برادر حازم احمد غوراب  آپ سے پوچھتے ہیں:  پر خاص طور پر نائیجیریا میں مشنری اور صہیونی دباؤ کتنا ہے؟ کیا آپ کو یاد ہے مرحوم مبلغ احمد گھراب کو کس طرح کانو سے بے دخل کیا گیا؟ در حقیقت، افریقی براعظم میں صیہونیت کے داخلے کے بارے میں بھائی حبیب حسن ناصر بھی کچھ سوالات پوچھے گئے تھے۔ کیا.. کیا افریقہ میں اسرائیل کا مضبوط اثر رسوخ ہے؟ کیا خاص طور پر نائیجیریا پر دباؤ ہے؟

ابراہیم صالح الحسینی: خدا کی قسم، یہ افریقہ ہے.. کچھ افریقی خطوں میں اسرائیل کی تجارتی موجودگی ہے، اور یہ کسی وقت نائیجیریا میں بھی موجود تھا، پھر تعلقات کو الگ کرنے کے بعد یہ لوگ چلے گئے، پھر تعلقات کی واپسی کے بعد کچھ سوداگروں کی شکل میں واپس آئے، کچھ کے نمائندوں کی شکل میں۔ کمپنیاں اور اس سے انکار نہیں کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ جو مسلمان سننے والوں یا ناظرین کو یقین دلانا چاہتا ہے، وہ انھیں یہ یقین دلانا چاہے گا کہ اسرائیل کے حوالے سے اور خاص طور پر افریقہ اور خاص طور پر نائیجیریا میں جو برائی، فریب کاری اور سازش کی جا رہی ہے اس کے بارے میں مسلمان انتہائی محتاط ہیں۔ ہمارے بھائی غوراب کے بارے میں، میں اس کی وجوہات نہیں جانتا ہوں، لیکن میں نے اس کے بارے میں سنا تھا اور اس کے بارے میں جانتا تھا، میں نے اس کے بارے میں بہت سنا تھا، انہوں نے اس کے بارے میں بات کی، لیکن مجھے ان حالات کے بارے میں معلوم نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں نائیجیریا سے جلاکیا گیا تھا۔

مہر عبد اللہ: مجھے بہت ہی مختصر اجازت دیں۔میں نے اختتام کے لئے تین منٹ سے بھی کم وقت باقی ہے۔

ابراہیم صالح الحسینی: ٹھیک ہے۔

ماہر عبد اللہ:  نائجیریا میں اسلامی قانوں لاگو کرنے کے بارے میں ہم سنتے ہیں، میں ان کو اسلامی تجدید حرکات“ کے نام سے سمجھتا ہوں۔مگر کچھ علاقوں میں شریعت کی احکام لاگو کرنے کے اعلان کے بعد جھڑپیں اور مظاہرے ہوئے تھے، کیا نائیجیریا میں ہو رہا ہے - او آپ نائیجیریا میں اتھارٹی کا حصہ ہیں - اسلامی قانون کے لاگومیں جو کچھ ہورہا ہے وہ  عیسائیوں کے مخالف ہیں نا؟۔

ابراہیم صالح الحسینی:  خدا کی قسم،  حقیقت میں، ہم نائیجیریا میں ایک طویل عرصے سے شریعت سے بہت دور  رہ چکے ہیں، اور یہی وجہ سے کہ نائجیریا کے لوگ شریعت کی طرف لوٹنے کی پسند دل میں رکھتا ہوں، اور یہ.. اور یہ تمام نائجیریا کی خواہش کی عکاسی کرتی ہے، شریعت کا اطلاق کرنے میں، نہ ہی سیاسی وغیرہ مقصد نہیں ہیں، اور یہ اب (ابوجا) میں ہے، جو گندے پانیوں میں مچھلیاں مارتے ہیں،، مثال کے طور پر، جس نے دیکھا کہ نائیجیریا کی گلی شریعت کی وکالت کرتی ہے، لہذا سیاستدان اپنے کچھ اہداف حاصل کرنے کے لئے شریعت کو اپنایا،  لیکن حقیقت میں جدر شریعت کی لاگوشروع کیا جیسے۔ (زنگارا)، (کانو)،. (موبوف)، ان (بورنو) اور دیگر علاقوں میں،  واقعتا لاگو کے تحقیقات کا مقصد ہے.. یہ تو پوری امت اسلام کی مطالبہ ہیں کیوں کہ شریعت چھوڑنے سے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے،  اور ایک مسلمان کی زندگی غیر مسلم کی زندگی کی طرح ہی ہوگئی ہے، اور شریعت وہی چیز ہے جو مسلمانوں کو سلامتی، امن، استحکام، پاکیزگی اور مسلم سیاست دانوں کو شفافیت کو بحال کرتی ہے، لہذا نائیجیریا میں ایک مسلمان کے لئے شریعت ایک اہم اور بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔

ماہر عبد اللہ:  کیا یہ ٹھیک ہے.. میرا مطلب ہے، مجھے اتھارٹی کا ایک حصہ اظاہر کرنے سے اجازت دو.. جیسا کہ آپ جانتے ہیں، یا آپ ریاست سے متعلق ہیں، اس حکم لاگو کرنے کیا کوئی خوف زدہ بات ہیں؟

ابراہیم صالح الحسینی: نہیں.. نہیں، ریاست شریعت لاگوکرنے سے خوفزدہ نہیں ہے، اور ہمارے جنوب میں سے کچھ بھائیوں نے جو بھیانک حملہ کیا ہے اسے باہر سے ہی قرار دیا جاتا ہے، یہ باہر سے آیا ہے، ایک مسلمان کی زندگی تمام شریعت ہے، شریعت کا اطلاق عیسائی کو نہیں ڈراتاہیں،۔ یہ سچ ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو کچھ الفاظ سے عام عیسائیوں کو ڈرا دیتے ہیں، لیکن در حقیقت شریعت کا اطلاق عیسائی کو مسلمان کی طرح ہی محفوظ کرتا ہے،، لیکن کچھ غیر اسلامی تنظیمیں موجود ہیں جو نائیجیریا کے عیسائیوں کو سیاسی مقاصد کے لئے شریعت کے قانون کی مخالفت کرنے پر مجبور کررہی ہیں۔

ماہر عبد اللہ:  جناب، آپ کا شکریہ، اور میں آپ کی طرف سے،  کچھ بھائیوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں جنہون نے آپ کو نائیجیریا کے لباس میں ملنا چاہتے ہیں۔ میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ اس عرب چادر کے افریقی لباس ہے۔

ابراہیم صالح الحسینی:  افریقہ کا لباس،!!

ماہر عبد اللہ:  لہذا ہم ان لوگوں سے معافی مانگتے ہیں جو فیکس کے ذریعہ یا انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی پوسٹس کو نہیں پڑھ پائے تھے، آپ لوگوں کے نام پر، میں ممتاز شیخ ابراہیم صالح الحسینی کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو  اہل البیت سے تعلق رکھتے ہیں اور..

ابراہیم صالح الحسینی: خدا کی قسم.. وہ بات چھوڑ دو..

ماہر عبد اللہ:   اچھی فالو اپ کے لئے آپ کا بھی شکریہ۔ السلام علیکم ورحمت اللہ۔